Advertisement
Advertisement

تعارف ِ شاعر

تلوک چند محروم 1885 ء پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصلی نام تلوک چند اور تخلص محروم تھا۔اردو کے علاوہ عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے معلمی کا پیشہ اختیار کیا۔ آزادی کے بعد وہ پاکستان سے دہلی آئے یہاں کچھ دنوں نامہ تیج سے وابستہ رہے اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی کیمپ کالج میں اردو اور فارسی کے لکچرر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ان کا انتقال 1966 ء میں ہوا۔

انسانی سیرت کی نقش گری میں ان کے قلم کو بڑی مہارت حاصل ہے۔ احساس مسرت ہو کہ اندوہ غم کا بیان، ان کا قلم ہر میدان میں رواں دواں نظر آتا ہے۔ منظر فطرت کی تصویر کشی میں بھی محروم کو کمال حاصل ہے۔

Advertisement

تعارف ِ نظم

یہ نظم ہماری درسی کتاب سے ماخوذ ہے۔ اس نظم کے شاعر تلوک چند محروم ہیں۔ شاعر نے اس نظم میں قومی یکجہتی کا ذکر کیا ہے۔ شاعر نے اس نظم میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ہندو مسلمان بھائی بھائی ہیں اور ان کو مل جل کر رہنا چاہئے۔ آپس میں لڑائی جھگڑے نہیں کرنے چاہیے چونکہ یہ دونوں قومیں پرانی ہیں تو انکو چاہیے کہ آپس میں کوئی بھید باؤ نہ رکھیں اور ملک کی ترقی کے لئے ہمیں آپس میں مل جل کر رہنا چاہیے۔

نظم ہندو مسلمان کی تشریح

ہندو مسلمان ہیں بھائی بھائی
تفریق کیسی کیسی لڑائی

نظم کے پہلے شعر میں شاعر فرماتا ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں بھائی بھائی ہیں، ان کے آپس میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہونا چاہیے۔

Advertisement
ہندو ہو کوئی یا ہو مسلمان
عزت کے قابل ہے بس وہ انسان

شاعر فرماتے ہیں کہ چاہے کوئی ہندو ہو یا مسلمان ہو ہمیں اس انسان کی عزت کرنی چاہیے۔( دوسرا شعر پڑھیں)

Advertisement
نیکی ہو جس کا کار نمایاں
اوروں کی مشکل ہو جسے آسان

پچھلے شعر کا حوالہ دیتے ہوئے شاعر فرماتے ہیں کہ ہمیں اسی انسان کی عزت کرنی چاہئے جو نمایاں طور پر نیک کام کرتا ہو اور دوسروں کے کام آتا ہو اور دوسروں کی مشکل آسان کرتا ہو۔

ہر ایک سے نیکی سب سے بھلائی
ہندو مسلمان سب بھائی بھائی

شاعر فرماتے ہیں کہ ہر ایک سے نیکی اور سب سے بھلائی کرنی چاہیے ہندو اور مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

Advertisement
ہندو مسلمان قومیں پرانی
دونوں کی دونوں ہندوستانی

شاعر فرماتے ہیں کہ ہندو مسلمان جو دو قومیں ہیں یہ بہت ہی پرانی قومیں ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں قومیں ہندوستان میں پلی بڑھی ہیں۔

دونوں کا مسکن ہندوستان ہے
دو بلبلیں ہیں ایک گلستاں ہے

شاعر اس شعر میں دونوں قوموں کو بلبل کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے وہ فرماتے ہیں کہ دونوں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ہندو اور مسلمان دو بلبلوں کی طرح ہے جن کا چمن ایک ہے۔

ایک سرزمین ہے اک آسماں ہے
دونوں کا یکجا سود و زیاں ہے

شاعر فرماتے ہیں کہ ہندو اور مسلمان کا آسماں بھی ایک ہے اور زمین بھی اک نفع ہو یا نقصان ہو وہ دونوں کے لیے برابر ہے یعنی اگر نقصان یا فائدہ ہوگا تو دونوں قوموں کا ہوگا۔

نا اتفاقی آزاد جاں ہے
مل جل کے رہنا ہے کامرانی
ہندو مسلمان قومیں پرانی

نظم کے آخری شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ نا اتفاقی میں جان کا خطرہ ہے اگر ہم مل کر رہیگے تو اس میں بھلائی اور کامرانی ہے۔ ہمارا ملک تبھی ترقی کرے گا جب دونوں کو میں آپس میں اتفاق رکھیں اور آپس میں مل جل کر رہیں۔ آخر پر شاعر اس بات کی طرف پھر سے اشارہ کرتا ہے کہ ہندو مسلمان بھائی بھائی ہیں اور دونوں کی دونوں قومیں پرانی ہیں۔

Advertisement

سوالات

سوال: عزت کے قابل کون لوگ ہیں؟

ج: عزت کے قابل وہ لوگ ہیں جو نیک کام کرتے ہیں ، دوسروں کے دکھ بنٹتے ہیں اور لوگوں کے کام آتے ہیں۔

سوال: ہندو مسلمان میں تفریق کیوں نہیں ہونی چاہیے؟

ج: ہندو مسلمان میں اس لیے تفریق نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

سوال: ہندو مسلمان پرانی قومیں ہیں’ اس کا کیا مطلب ہے؟

ج: ہندوستان میں آزادی سے اور انگریزوں سے پہلے یہ دونوں قومیں آباد تھیں اسی لیے یہ پرانی قومی کہلائی جاتی ہے۔

Advertisement

سوال: اچھے انسان کی کیا پہچان ہے؟

ج: اچھے انسان کی یہی پہچان ہے کہ وہ ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے، دوسروں کے ساتھ بھائی کی طرح پیش آتا ہے، خود بھی جیتا ہے اور دوسروں کو بھی جینے دیتا ہے اور کسی کے ساتھ جھگڑا نہیں کرتا۔

نثر میں لکھیے۔

  • عزت کے قابل ہے بس وہ انسان
  • نثر: عزت کے قابل بس وہی انسان ہے۔
  • نیکی ہے جس کا کار نمایاں
  • نثر: جو نمایاں طور پر نیکی کا کام کریں۔
  • اوروں کی مشکل ہو جس سے
  • نثر: اور لوگوں کی مشکل جس سے آسان ہو۔
  • دونوں کا یکجا سود و زیاں ہے۔
  • نثر: دونوں کا برابر فائدہ اور نقصان ہے۔
  • ہندو مسلمان قومیں پرانی۔
  • نثر: ہندو اور مسلمان بہت پرانی قومیں ہیں۔

Advertisement

Advertisement