نظم درس عمل ، تشریح، سوالات و جوابات

0
  • پنجاب کریکولم اینڈ ٹکیسٹ بک بورڈ “اردو” برائے “آٹھویں جماعت”
  • سبق نمبر: 15
  • نظم کا نام: درس عمل
  • شاعر کا نام: سعادت نظیر

اشعار کی تشریح:

اٹھو قدم قدم سے ملاتے چلے چلو
سب مل کے ایک راہ بناتے چلے چلو
منزل کی دھن میں جھومتے گاتے چلے چلو
ہر مرحلے کو سہل بناتے چلے چلو

یہ اشعار “سعادت نظیر” کی نظم “درسِ عمل” سے لیے گئے ہیں۔اس بند میں شاعر عمل کرنے کا درس دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اٹھو اور حرکت میں آؤ سب ایک ساتھ مل کر قدم ملاتے ہوئے چلو، سب ایک ہی راستے پہ ایک ساتھ چلو اپنی منزل کو پانے کے لیے اس کے حصول کی لگن ہونا ضروری ہے اس لیے ایک دھن میں جھومتے گاتے آگے بڑھو اور ہر قدم پر اپنی منزل اور مراحل کو آسان بناتے ہوئے چلو۔

بن کر گھٹا فضاؤں پہ چھاتے چلے چلو
ہر ہر قدم پہ دھوم مچاتے چلے چلو
تفریق رنگ و نسل مٹاتے چلے چلو
انسانیت کی شان دکھاتے چلے چلو

اس بںد میں شاعر کہتا ہے کہ تم اس طرح آگے بڑھو کہ جیسے گھٹا ساری فضا پہ چھا جاتی ہے۔ منزل کی جانب اٹھتا ہوا تمھارا ہر ایک قدم جھوم مچاتا ہوا آگے بڑھنا چاہیے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ تم رنگ اور نسل کے فرق کو بھول جاؤ بلکہ ایک طاقت بن کر محض انسانیت کے جذبے کو ابھارو اور انسانیت کا بول بالا کرو۔

آگے بڑھو رکو نہ کسی رہ گزار پر
ہر دم سفر کا لطف اٹھاتے چلے چلو
مایوسیوں میں چھیڑ دو نغمے امید کے
تاریکیوں میں جوت جگاتے چلے چلو

اس بںد میں شاعر کہتا ہے کہ اپنی منزل کے حصول کے لیے آگے بڑھتے چلو اور راستے میں کسی بھی موڑ پر رکو مت بلکہ ہر لمحہ اپنے سفر کا لطف اٹھاتے رہو۔ اگر کبھی اس منزل کے حصول میں تمھیں مایوسیوں کے سائے گھیرنے لگے تو اسی وقت اپنی امید کی شمع کو روشن کرو اور تاریکی کی جوت جگاتے ہوئے پھر سے آگے بڑھتے چلو۔

ٹوٹے ہوئے دلوں کو محبت سے جوڑ دو
جوہر عمل کے اپنے دکھاتے چلے چلو
چمکو گگن کے تاروں کی صورت زمین پر
تم آسماں زمیں کو بناتے چلے چلو

اس بںد میں شاعر کہتا ہے کہ تمھیں چاہیے کہ تم ٹوٹے ہوئے دلوں کو محبت کے جذبے سے جوڑو اور اپنے عمل کے جوہر ہر جگہ پہ دکھاؤ محض یہی نہیں بلکہ آسمان کے ستاروں کی صورت تمھیں زمین پہ چمکنا اور روشنی پھیلانی ہے۔تمھیں چاہیے کہ تم اپنے کارناموں اور روشنیوں سے زمین کو بھی آسمان کی طرح بناتے ہوئے آگے بڑھو۔

پت جھڑ کی رت میں پھول کھلانا کمال ہے
پت جھڑ کی رت میں پھول کھلاتے چلے چلو
بدلے خزاں نظیرؔ چمن میں بہار سے
وہ گیت زندگی کے سناتے چلے چلو

اس بںد میں شاعر کہتا ہے کہ پت جھڑ کا موسم کے جب خزاں میں ہر درخت ، پتا ، پھول مرجھا جاتا ہے ہر جانب مرجھائے ہوئے پھول پتے گرے ہوتے ہیں اس موسم میں اگر تم پھول کھلاتے ہو تو یہ واقعی ایک کمال عمل ہے۔ اس لیے تمھیں خزاں کے اس موسم میں بہاروں کولانا ہے اور آخر میں شاعر خود کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ زندگی کے وہ گیت جو خزاں کو بہار میں بدل سکیں تمھیں وہ گیت سنانے ہیں۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جواب دیں۔

درس عمل کے کیا معنی ہیں؟

درس عمل کے معنی ہیں عمل کرنے کا درس یا سبق۔

شاعر کے مطابق ہم زندگی کے ہر مرحلے کوکس طرح سہل بنا سکتے ہیں؟

شاعر کے مطابق ساتھ قدم ملا کر چلنے اور منزل کی دھن کو اپنا لینے سے ہم زندگی کے ہر قدم جو سہل بنا سکتے ہیں۔

مایوسیوں میں اُمید کے نغمے کس طرح چھیڑے جاسکتے ہیں؟

پر امید رہ کر اور زندگی کے روشن پہلو دیکھتے ہوئے مایوسیوں میں امید کے نغمے چھیڑے جا سکتے ہیں۔

عمل کے جو ہر دکھانے سے کیا مراد ہے؟

عمل کے جوہر دکھانے سے مراد ہے اپنے اعمال کی کارکردگی دکھانا یعنی اچھے اعمال کرکے انسانیت کا بول بالا کرنا۔

آسمان کو زمین بنانے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

آسمان کو زمین بنانے سے شاعر کی مراد ہے زمین پہ ایسے اعمال کرنا جو آپ کی شہرت کا سبب بنیں اور زمین کو اچھے اخلاق اور اعمال سے روشن کرنا ہے آسمان کو زمین بنانا ہے۔

مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جواب دیں۔

(الف) انسانیت کی شان دکھاتے چلے چلو سے شاعر کی کیا مراد ہے ؟ آپ کس طرح انسانیت کی شان دکھا سکتے ہیں ؟

انسانیت کی شان دکھاتے چلے چلو سے شاعر کی مراد ہے کہ رنگ ، نسل ،مذہب ، علاقے کی تفریق کو اگر مٹا کر دیکھا جائے تو اس کرہ ارض میں بسنے والے تمام لوگ انسان ہیں۔ اس دنیا میں جو چیز سب سے اہمیت کی حامل ہے وہ انسانیت ہی ہے۔ ہر مذہب بھی انسانیت کی اہمیت اور فضیلت کا درس دیتا ہے۔ یہاں شاعر کی یہی مراد ہے کہ اس فرق کو بھلا دیا جائے کہ میرا تعلق تو فلاں علاقے ، قبیلے یا نسل سے ہے بلکہ سب ایک ہو کر انسانیت کی لڑی میں پرو جائیں اور ہر فرق کو مٹا کر ہی انسانیت کی شان بڑھائی جا سکتی ہے۔ امیر غریب اونچے نیچے کے فرق کو مٹا کر انسانیت کی شان بڑھائی جا سکتی ہے۔

(ب) پت جھڑ کی رُت کیا ہوتی ہے؟ شاعر نے یہ ترکیب کیوں استعمال کی ؟ شاعر نے یہ کیوں کہا کہ پت جھڑ کی رُت میں پھول کھلانا کمال ہے؟

پت جھڑ کی رت سے مراد خزاں کا موسم ہے۔ شاعر نے یہ ترکیب ایک ناممکن اور قدرے مشکل کام کو ممکن کرنے کے لیے استعمال کی ہے۔ خزاں کے موسم میں پھول کھلانا مشکل کام ہے لیکن اگر کوئی یہ کام کر لیتا ہے تو یہ واقعی کمال کی بات ہے۔ اس کی مثال ایسے بھی لی جا سکتی ہے کسی ایسے شخص کے دل میں جگہ بنانا جو آپ کو پسند نہ کرتا ہو ایک ناممکن کام ہے لیکن اگر آپ اس میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ ایک کمال ہے۔

متن کے مطابق دُرست جواب پر ✓ کا نشان لگا ئیں۔

  • (الف) مایوسیوں میں چھیڑ دو نغمے :
  • زندگی کے خوابوں کے نسیم کے امید کے✔️
  • (ب) ٹوٹے ہوئے دلوں کو محبت سے:
  • موڑ دو توڑ دو جوڑ دو ✔️ کھول دو
  • (ج) چمکوگگن کے تاروں کی صورت :
  • آسمان پر بادلوں میں ہوا میں زمین پر✔️
  • (د) تفریق رنگ ونسل مٹاتے :
  • چلے چلو✔️ چلتے چلو لگےچلو بڑھتے چلو
  • (ه) پت جھڑ کی رُت میں پھول کھلانا:
  • وبال ہے محال ہے کمال ہے✔️ مثال ہے
  • (و) بدلے خزاں نظیر چمن میں:
  • خزاں سے موسم سرما سے پت جھڑ سے بہار سے ✔️

اتفاق اور اتحاد سے متعلق کوئی اور نظم انٹرنیٹ سے پڑھیں اور کاپی میں تحریر کریں۔

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
ایک چمن کے پھول ہیں سارے، ایک گگن کے تارے
ایک گگن کے تارے
ایک سمندر میں گرتے ہیں سب دریاؤں کے دھارے
سب دریاؤں کے دھارے
جدا جدا ہیں لہریں، سرگم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
ایک ہی کشتی کے ہیں مسافر اک منزل کے راہی
اک منزل کے راہی
اپنی آن پہ مٹنے والے ہم جانباز سپاہی
ہم جانباز سپاہی
بند مٹھی کی صورت قوم ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
پاک وطن کی عزت ہم کو اپنی جان سے پیاری
اپنی جان سے پیاری
اپنی شان ہے اس کے دم سے، یہ ہے آن ہماری
یہ ہے آن ہماری
اپنے وطن میں پھول اور شبنم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں

زبان شناسی:

پڑھنے میں بالکل ایک جیسے ہوں لیکن اُن الفاظ کے معانی ایک سے زیادہ ہوں، ذو معنی الفاظ کہلاتے ہیں۔ اشعار میں ایسے الفاظ کا استعمال “صنعت تجنیس “ کہلاتا ہے ، جیسے : ” کان سنے کا عضو بھی ہے اور معدنیات نکالنے کی جگہ بھی۔ اسی طرح ”من“ جی، دل یا قلب کو بھی کہتے ہیں اور یہ وزن کی اکائی بھی ہے جس کا مطلب ہے چالیس کلو گرام ۔ ۔
شاعر اور ادیب اپنے فن پارے میں رنگ بھرنے کے لیے شعری صنعتوں کا استعمال کرتے ہیں۔ صنعت تجنیس کا شماربھی انھیں صنعتوں میں ہوتا ہے۔

لفظوں کا کھیل:

درج ذیل ذو معنی الفاظ کے معانی تحریر کریں اور جملے بنا ئیں۔

دام قیمت اس لباس کے کیا دام ہیں؟
دام جال شکار باآسانی شکاری کے دام میں آ گیا۔
بیل جانور بیل ہل چلانے کے کام آتا ہے۔
بیل گانٹھ یہ روئی کی بیل ہے۔
عالم دنیا وہ اس عالم میں بھی تنہائی کا شکار ہے۔
عالم علم والا عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔
سونا دھات آج کل سونا بہت مہنگا ہے۔
سونا نیند کرنا مجھے سونا ہے۔
سنگ ساتھ ہم سب آپ کے سنگ ہیں۔
سنگ پتھر احمد ایک سنگ دل انسان ہے۔

ان الفاظ و تراکیب کا مفہوم بتائیے۔

پھولوں کی انجمن، دن کا سفیر، سورج کا پیرہن ، خاموشی ازل۔

پھولوں کی انجمن پھولوں کی محفل
دن کا سفیر روشنی/ دن کا نمائندہ
سورج کا پیرہن سورج کا لباس / سورج کا لبادہ
خاموشی ازل ہمیشہ سے خاموشی۔

اس نظم میں موجود قافیوں کی نشان دہی کیجیے۔

اس نظم میں ملاتے ، بنا تے ، گاتے ، چھاتے ، مچاتے ، مٹاتے ، دکھاتے ، اٹھاتے ، جگاتے ، کھلاتے اور سناتے ہم قافیہ الفاظ ہیں۔

تخلیقی لکھائی:

درج ذیل اشعار کی تشریح کریں۔ شعری حوالہ بھی لکھیں۔

ٹوٹے ہوئے دلوں کو محبت سے جوڑ دو
جوہر عمل کے اپنے دکھاتے چلے چلو
چمکو گگن کے تاروں کی صورت زمین پر
تم آسماں زمیں کو بناتے چلے چلو

یہ اشعار “سعادت نظیر” کی نظم “درسِ عمل ” سے لیے گئے ہیں۔ اس بںد میں شاعر کہتا ہے کہ تمھیں چاہیے کہ تم ٹوٹے ہوئے دلوں کو محبت کے جذبے سے جوڑو اور اپنے عمل کے جوہر ہر جگہ پہ دکھاؤ محض یہی نہیں بلکہ آسمان کے ستاروں کی صورت تمھیں زمین پہ چمکنا اور روشنی پھیلانی ہے۔تمھیں چاہیے کہ تم اپنے کارناموں اور روشنیوں سے زمین کو بھی آسمان کی طرح بناتے ہوئے آگے بڑھو۔

نظم کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

اس نظم کا بنیادی خیال “محبت کادرس ” ہے۔ شاعر نے اچھے اور مثبت اعمال کے ذریعے محبت اور انسانیت کا بول بالا کرنے کا درس دیا ہے۔جس سے زندگی کو خوبصورت بنایا جا سکتا ہے۔