پطرس بخاری | Patras Bukhari Biography In Urdu

0

تعارف

اردو ادب کے صفِ اول کے مشہور و نامور افسانہ نگار، مزاح نگار، مترجم، معلم، نقاد ، ماہر نشریات اور پاکستان کے سفارت کار کا نام سید احمد شاہ تھا جو کہ پطرس بخادی کے نام سے مقبول ہوا۔احمد شاہ ۵ دسمبر ۱ اکتوبر ۱۸۹۸ کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ ان کے عہد میں ابتدائی تعلیم گھر پر ہی دی جاتی تھی اسی لیے انھوں نے قرآن پاک کا ناظرہ گھر پر ہی پڑھا بعد ازیں ان کو فارسی کی تعلیم بھی دی گئی۔ اسکول کی تعلیم پشاور سے حاصل کی۔

کالج پڑھنے کے لیے آپ کے والد نے آپ کو گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے دیا۔ مزید اعلیٰ تعلیم بیرونی ملک سے حاصل کی اور اسی سلسلے میں انگلستان چلے گئے۔ آپ نے گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی بعد ازیں ترقی کرکےپرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔

ادبی تعارف

پطرس اردو طنز و مزاح میں ایک نئے اسلوب کے خالق ہیں۔ ان کا اسلوب شوخی، شائستگی اور ظرافت کا حسین مرقع ہے۔ ان کے مزاحیہ مضامین میں انسانی نفسیات کی گرہیں کھلتی نظر آتی ہیں۔ ان کے کردار اپنی حرکت و عمل سے ہمیں مسکرانے اور بعض اوقات قہقہے لگانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ مضامین پطرس کے مطالعے سے ان کی ذہنی طباعی، انسانی نفسیات پر ان کی بھرپور گرفت، زبردست قوت مشاہدہ اور تخیل کی بلند پروازی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی تحریروں میں کسی قسم کی بناوٹ یا تصنع نہیں ملتا بلکہ قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ فطری بات ہے۔ وہ واقعات اور کرداروں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ خود بخود مزاح پیدا ہوجاتا ہے۔

اسلوب

پطرس بخاری اردو کے بہترین اور صف اول کے پہلے باقائدہ مزاح نگار ہیں۔ ان کا انداز بیاں سادہ سلیس اور آساں ہے۔ ان کی تحریریں دیکھیں تو یوں معلوم ہو رہا ہے جیسے آپ کتاب پڑھ نہیں رہے بلکہ آپ بات کر رہے ہیں۔ تحریروں میں انسان اس قدر مستغرق ہو جاتا ہے کہ ہمیں گویا یہ لگنے لگتا ہے جیسے وہ ہم سے گویا ہیں۔ ہم جو کہنا چاہتے ہیں وہی وہ بیان کر رہے ہیں۔ ہم کلامی کی سی کیفیت ان کے یہاں بہت منفرد پائی گئی ہے جو کسی اور کے لکھے میں نہیں۔ ان کا طنز، مضامین کے کردارں کا بھولاپن اور عامیانہ پن ہی وہ اصناف ہیں جن سے وہ انتہائی مقبول ہوئے۔

ان کے یہاں واقعہ جس انداز سے بیان ہوتا ہے لفظوں کا احسن طریقے سے انتخاب اور جملوں کی بنت کاری مضمون میں مزاح سے کچھ بڑھ کر بنا دیتی ہے جیسے جیسے انسان پڑھتا جاتا ہے ایک فلم کی مانند سب سامنے چلنے لگتا ہے۔ ان کے یہاں محاورے ضرب المثال اور اشعار کی اپنی مزاح کی لغت میں بیان کرنا اور ان سے مضحکہ خیز واقعات کی تصویر کشی کرنا ایسی مہارت اور خوبصورتی سے کہ سحر انگیزی پھیل جاتی۔

ان کے کردار گویا ہمارے آس پاس چلتے پھرتے گھومتے نظر آتے ہیں۔ان کا عام الناس کے رویوں اور نفسیات کو سمجھنا اور زندگی کے بالکل بنیادی شعبوں کا قریب سے معائنہ ان کی مہارتوں میں سے ایک مہارت ہی کا کمال ہے۔ انھوں نے جائزے سے انسانی زندگی کے نازک ، لطیف اور نرم و ملائم پہلوؤں پر قلم اُٹھایا ہے۔ آپ کی تحریروں میں پیش کئے گئے کرداروں اور واقعات کا تعلق کسی خاص معاشرے سے نہیں ، بلکہ آپ نے تمام تہذیبوں میں پائی جانے والی یکساں صفات کی عکاسی کی ہے۔

اعزاز

پطرس بخاری کو برطانوی سرکار نے اعزاز سے نوازا ہے۔
۲۰۰۳ میں حکومتِ پاکستان نے آپ کی ادبی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ہلال امتیاز سے نوازا۔
پاکستان ڈاک نے آپ کے نام کا ایک یادگار ٹکٹ جاری بھی کیا تھا۔

آخری ایام

۵ دسمبر ۱۹۸۵ کو نیو یارک امریکہ میں سب لبوں پر ہنسی بکھیرنے والے احمد شاہ راہی ملک عدم ہو گئے۔ آپ کو نیویارک میں ہی مدفن کیا گیا۔