Back to: Yagana Changezi Poetry | Biography
0
- چراغ زیست بجھا دل سے اک دھواں نکلا
- لگا کے آگ میرے گھر سے مہماں نکلا
- دل اپنا خاک تھا پھر خاک کو جلانا کیا ؟
- نہ کوئی شعلہ اٹھا اور نہ کچھ دھواں نکلا
- سنیں گے چھیڑ کے افسانۂ دل مرحوم
- ادھر سے ملک کے عدم کا جو کارواں نکلا
- تڑپ کے آبلا پا اٹھ کھڑے ہوئے آخر
- تلاش یار میں جب کوئی کارواں نکلا
- لہو لگا کے شہیدوں میں ہو گئے داخل
- ہوس تو نکلی مگر حوصلہ کہاں نکلا
- حریمِ ناز میں شاید کسی کو دخل نہیں
- دل عزیز بھی ناخواندہ مہماں نکلا
- نہاں تھا خانۂ دل ہی میں شاہد مقصود
- جو بے نشان تھا وہ دیوار درمیاں نکلا
- ہے فن عشق کا استاد بس دل وحشی
- مریض غم کا یہی اک مزاج داں نکلا
- لگا ہے دل کو اب انجام کار کا کھٹکا
- بہار گل سے بھی ایک پہلوئے خزاں نکلا
- زمانہ پھر گیا چلنے لگی ہوا الٹی
- چمن کو آگ لگا کر جو باغباں نکلا
- ہمارے صبر کی کھاتے ہیں اب قسم اغیار
- جفا کشی کا مزہ بعد امتحاں نکلا
- خوشی سے ہو گئے بدخواہ میرے شادی مرگ
- کفن پہن کے جو میں گھر سے ناگہاں نکلا
- اجل سے بڑھ کے محافظ نہیں کوئی اپنا
- خدا کی شان کہ دشمن نگاہِ باں نکلا
- دکھایا گور سکندر نے بڑھ کے آئینہ
- جو سر اٹھا کے کوئی زیر آسماں نکلا
- لحد سے بڑھ کے نہیں کوئی گوشۂ راحت
- قیامت آئی جو اس گھر میں مہماں نکلا
- اب اپنی روح سے اور سیر عالم بالا
- کنویں سے یوسف گم کردہ کارواں نکلا
- کلام یاسؔ سے دنیا میں پھر اک آگ لگی
- یہ کون حضرتِ آتش کا ہم زباں نکلا