میر تقی میر

0

میر تقی نام اور میر تخلص تھا- آپ اکبر آباد میں پیدا ہوئے- دس سال کی عمر میں والد کا انتقال ہوگیا تھا سوتیلے بھائیوں کی بدسلوکیوں سے تنگ آکر آپ آگرہ سے اپنے ماموں سراج الدین خان آرزو جو کہ اردو اور فارسی کے بڑے شاعر تھے، ان کے پاس دہلی چلے آئے۔ یہیں پر آپ نے سعادت علی خان آمروہی اور جعفر عظیم آبادی کی تعلیم سے تعلیم و تربیت حاصل کی۔ پھر کسی بات پر خان آرزو سے ان کا اختلاف ہو گیا اور آپ نے خود کو ان کی سرپرستی سے الگ کر لیا- مگر معاش کیلئے در در کی ٹھوکریں کھانے کے باوجود آپ نے کسی کے آگے دست سوال نہیں کیا بلکہ خود داری اور قناعت پسندی کو اپنا سہارا بنایا-

جب دہلی نادر شاہ اور مرہٹوں کے ہاتھوں ایک دم تباہ ہو گئی تو آپ نے لکھنؤ کا رخ کیا۔ نواب آصف الدولہ نے میر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور یہیں پر آپ کی شاعری کو عروج و کمال حاصل ہوا۔ آپ نے لکھنؤ میں انتقال فرمایا۔

میر کی تصانیف اور تخلیقات میں سات اردو دیوان، ایک فارسی دیوان، ایک شاعری کا تذکرہ نکات الشعراء اور ایک خود نوشت ذکر میر ہے-

میر کی پوری زندگی غم و الم اور مصیبتوں میں گزری اور تقدیر نے کسی بھی معاملے میں کبھی ان کی پیروی نہیں کی یہاں تک لکھنؤ آنے کے بعد بھی آپ کو خوشحالی حاصل نہ ہو سکی کیوں کہ آپ کسی کی خوشامد میں قصیدہ نہیں لکھ سکتے تھے- ان کی زندگی کے اس دردناک رخ کا تاثر ان کی غزلوں میں چھا گیا اور نقواروں نے انہیں غزل کا بادشاہ قرار دیا- تاہم وہ مثنوی میں میر حسن اور قصیدے میں سودا سے آگے نہ بڑھ سکے-

میر کی شاعرانہ عظمت اور بحیثیت غزل گو ان کی قدر و قیمت ان کے کلام کے درج ذیل خصوصیات سے ظاہر ہوتی ہے-

۱- ان کے یہاں خیال کی بے پناہ بلندی ان کی یاس و حزن کی کیفیت کی وجہ سے ہے- ان کا غم و الم ان کے اشعار میں اس طرح ڈھلتا ہے کہ وہ دل میں اتر جاتا ہے-

۲- الفاظ کا صحیح استعمال اور ان کی درست ترتیب و ترلیب زبان میں موسیقیت پیدا کر دیتی ہے- اس کے ساتھ اگر سادگی سلاست اور پیرانا بیان بھی عمدہ ہو تو شعر کا مرتبہ مزید بلند ہوجاتا ہے- میر کے کلام میں یہ سب خوبیاں موجود ہیں-

۳- میر کا کلام ایسا درد بھرا ہے کہ اس کو پڑھ کر دل میں چوٹ لگتی ہے لیکن یہ چوٹ بھی درد سے خالی نہیں ہے-

۴- زبان کی فصاحت سادگی سوز و گراز مضامین کی جدت اور تاثیر ایسی خوبیاں ہیں جو اردو کے کسی بھی شاعر میں اکھٹا نہیں پائی جاتی ہیں اور نہ ہی اس درجہ کی پائی جاتی ہیں-

۵- ان کی شاعری اگرچہ عاشقانہ ہے مگر کہیں کہیں وہ حكمیانہ اور فلسفیانہ مضامین کو بھی باندھتے ہیں اور ان میں حسرت و یاس کے عناصر غالب ہیں-

۶- ان کے کلام میں حد درجہ درد اور مایوسی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کی خود کی زندگی بھی صرف درد میں ہی گزری ہے اور دوسری وجہ دلی کی بار بار تباہی ہے جو کہ میر نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور اس کا انکے دل پر گہرا اثر ہوا-

۷- ان کے کلام میں اصلیت اور واقفیت ہے ان کے کلام میں بے جا تکلف اور فضول لفاظی کہیں نہیں ہے-

۸- اشعار میں تاثیر کی شدت سے بھی میر کا مقام اردو کے تمام شعراء میں سب سے بلند ہے یہی وجہ ہے کہ صدیاں بیت جانے کے باوجود بھی ان کا کلام آج بھی اتنا ہی مقبول ہے جتنا پہلے تھا-

۹- شاعر کا معراج کمال یہ یے کہ اس کا عام کلام ہم وار اور اصول کے موافق ہو اور اس میں کہیں کہیں ایسا حیرت انگیز جلوہ نظر آئے کہ جس سے شاعر کا کمال ہر خاص و عام کے دل پر نقش ہو جائے- اس پہلو سے بھی میر بہت مضبوط ہیں-

۱۰- میر کے الفاظ ملائم، دھیمے، سادہ اور سلیس ہوتے ہیں تاہم ان کی تہہ میں غضب کا جوش اور درد چھپا ہوتا ہے- اس وجہ سے ان کا کلام غور سے پڑھنے کے قابل ہے-

۱۱- جب تک بیان میں تازگی ادائے مطلب میں شگفتگی اور خیال میں بلندی اور جدت نہ ہو تب تک زبان کی فصاحت کام نہیں آ سکتی۔ اس پہلو سے بھی میر کا مرتبہ بہت بلند ہے- میر کا کلام سوز و غم کا پتلا ہے جس میں تکلف نام کو نہیں ہے- میر کے یہاں خیال کے ساتھ ساتھ الفاظ اس طرح لیٹے ہوئے ہیں کہ دونوں کو جدا کرنا ناممکن ہو جاتا ہے- میر کے یہاں سکون اور خاموشی ہے۔ میر کے اشعار چپکے چپکے اپنے آپ دلوں میں اتر جاتے ہیں-

۱۲- میر کے کلام میں ہمیں معشوق کی جفا یا بے وفائی کا ذکر نہیں ملتا بلکہ عاشق کی جوانی اور اس کی حالت زار کی طرف اشارہ ملتا ہے-

۱۳- انسان کی طبیعت کے دو رنگ ہوتے ہیں لطف و مسرت اور درد و غم- میر کا کلام ویسے تو پورا کا پورا درد و غم کا آئینہ ہے مگر کمال یہ ہے کہ ہر جگہ درد و غم میں انھوں نے لطف اور مسرت و مستی کے پھول کھلا دیے ہیں-

۱۴- میر کی شاعری عوام اور خواص دونوں کو یک وقت متاثر کرتی ہے حالانکہ کچھ کلام صرف طبقہ خاص کے لئے ہی مخصوص ہیں-

۱۵- مسئلہ جبر و قدر کے معاملہ میں میر جبر کے خیال نہیں ہے-

۱۶- میر کائنات کی تخلیق کو محض ایک حادثہ نہیں سمجھتے بلکہ وہ یہ مانتے ہیں کہ اس کائنات کی تخلیق ایک منصوبے کے تحت کی گئی ہے جس میں تنظیم اور توازن دونوں ہے-

میر نے وہ زمانہ پایا تھا جب دلی سے لے کر لکھنؤ تک کوئی بھی خوش نہ تھا- سیاسی اتھل پتھل نے سب کو تباہ و برباد کر دیا تھا- ایسا لگتا ہے کہ میر کی شاعری صرف انہی کا ترجمان نہیں ہے بلکہ پوری قوم کی داستان غم ہے۔

میر کی شاعری میں قنوطیت اگرچہ بھری بڑی ہے لیکن وہ مایوسی اور غم میں سینہ زنی نہیں کرتے۔ وہ شدت کی تکلیف سے چیختے نہیں ہیں بلکہ وہ بڑے وقار لہجے میں اپنے درد کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ وہ آفاقی حقیقت بن جاتا ہے- یہی وجہ ہے کہ میر اپنی قنوطیت سے بیزار نہیں ہیں-

میر کی عظمت ان کی بھرپور دردمندی اور بے مثل لالہ کاری میں ہے وہ یاس و ہرماں کے ترجمان ہوتے ہوئے بھی قنوطی نہیں کہے جا سکتے- میر کی غزل ایک حساس اور درد مند انسان کی آواز ہے جسے شدت احساس نے فریاد پر مجبور کردیا ہے-

ہم کہہ سکتے ہیں کہ میرا ایک مصور غم ہے اور جذبات انسانی کے صحیح ترجمان ہیں۔ ان کی سادگی اور سلاست ایک عالم کو متاثر کرتی ہے اور اس کی وجہ سے میر ایک زندہ جاوید شاعر بن گئے ہیں۔

“کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے
فقیرانہ آئے تھے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے -“