حسرت موہانی

0

فضل الحسن نام اور حسرت تخلص تھا۔ ۱۸۷۵ء میں قصبہ موہان ضلع انائو پو چی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ چلے گئے اور ۱۹۰۳ء میں وہاں سے بی اے کیا۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا اس لئے اس میدان میں تسلیم لکھنوی کے شاگرد ہوئے۔

ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت سے آپ کو بہت نفرت تھی اس لئے آپ نے جنگ آزادی میں عملاً حصہ لیا۔ آپ نے علی گڑھ سے ‘اردوے معلی’ جاری کیا جس کے ذریعہ آپ کے سیاسی خیالات منظر عام پر آئے۔ سیاسی سرگرمیوں کو لے کر آپ کئی بار جیل گئے- آپ سودیسي تحریک کے زبردست حامی تھے-آپ نے پہلی بار ملک میں مکمل آزادی کا نعرہ دیا۔ کپڑوں کی ایک دکان بھی کھولی- ۱۹۵۱ء میں لکھنؤ میں انتقال فرمایا-

دنیائے ادب میں حسرت کی جو حیثیت متعین کی گئی ہے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

۱ – اردو غزل کی تاریخ میں حسرت کی حیثیت قدیم وجدید کے درمیان ایک کڑی کی ہے۔ جب آپ محبوب کا سراپا اس کے ناز و ادا اور عشق کی دیوانگی کو غزل کی زبان میں پیش کرتے ہیں تو آپ قدیم انداز غزل کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں اور جب آپ اپنی غزلوں کے ذریعے لوگوں کو دعوت اور عملی پیغام دیتے ہیں اور غزل میں سیاسی خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں تو ان کی غزلوں کا انداز جدید ہو جاتا ہے۔

۲- تغزل ل اور مضمون آفرینی میں آپ نے مومن کی درد و غم، میر کی رنگینی و رعنائی میں، مصحفی اور الفاظ کی تراش و خراش میں ناسخ کی پیروی کی ہے۔

۳- حسرت پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اردو غزل کو بازاری اور عمیانہ پن سے باہر نکالا اور اس میں رنگینی باقی رکھتے ہوئے بھی وقار پیدا کیا۔ حسرت کی کئی غزلیں فلمی دنیا میں بھی مقبول ہوئی ہیں۔
” جیسے؛ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے-“

۴- ان کے زیادہ تر اشعار ایسے ہیں جن میں نہ کوئی خیال آفرینی ہے اور نہ جدت طرازی لیکن پھر بھی ان کی لے دل کو متاثر کرتی ہے۔ جب ان کی شاعری کا راگ چھڑتا ہے تو موسیقی بھی ان کی راہ میں آنکھیں بچھاتی ہے۔

۵- حسرت کو اپنی عمزاد سے عشق تھا جو کہ دوطرفہ تھا یعنی دونوں طرف سے آگ برابر لگی ہوئی تھی۔ اس طرح حسرت کے کلام میں ناکامی محبت کی جھلک کا نہ ہونا ان کی کامیاب زندگی کا نتیجہ تھا۔

۴- ان کے کلام کی نمایاں خوبی تغزل ہے۔ معاملہ بندی میں حسرت مومن و غالب سے بھی آگے ہیں۔

مجھ سے تنہائی میں گر ملے تو دیجئے گا
اور بزم غیر میں نا آشنا ہو جائیے گا

۷- حسرت نے اپنی شاعری میں تغزل کو اتنی نزاکت سے پیش کیا ہے کہ وہ ہمیں مومن کے یہاں بھی نہیں ملتا۔

٨ – عشقیہ جذبات اور حیات کی تصویر کشی اور واردات کی نقاشی، جتنے کامیاب طریقے سے حسرت کے ہاں ملتی ہے وہ اردو کے کم ہی شعراء کے ہاں ملتی ہے۔

٩- حسن و عشق کی داستانیں، دل کی کیفیتیں، محبت کی حکایات، حمل یار کے کرشمے، ہجر و وصال کی لذتیں وغیرہ ان کی غزل کی اہم خصوصیات ہیں۔

١٠- حسرت نے لکھنؤی زبان میں دہلوی زبان کی ترجمانی کر کے غزل کو جو رنگ دیا ہے وہ بالکل انوکھا ہے- ان کے ہاں داخلیت اور خارجیت کا حسین امتزاج ملتا ہے۔

١١- ان کی غزلوں کے بعض اشعار ان کے سیاسی خیالات کے بھی ترجمان ہیں جو لوگوں کو آزادی کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں اور انہیں دعوت عمل دیتے ہیں۔

١٢- ان کے کلام میں صاف گوئی اور سلاست ہے۔ زبان نہایت صاف ستھری اور پاکیزہ ہے- تشبیہات کا استعمال بہت ہی کم ہے- اشاروں اور کنایوں میں گفتگو ہے مگر اس میں الجھاؤ نہیں ہے۔

١٣- آپ کے ہاں تصوف اور فلسفہ کی بھی چاشنی ہے اور تصوف میں وہ خرافات کے قائل نہیں ہیں- بلکہ اسے خالص اللہ کی رضا کا زینا تصور کرتے ہیں۔

١٤- روزمرہ کے محاوروں کا استعمال اور سادگئی بیان انکے کلام کی جان ہے – الفاظ کی ترکیبیی کہیں کہیں نئی ہے مگر ان کو سمجھنے میں وقت نہیں ہوتی۔

١٥- حسرت کے کلام میں تجربے کی اصلیت احساس کی تازگی اور اظہار کی رعنائی ہے- ان کی شاعری جلوت بھی ہے اور خلوت بھی- اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی شاعری میں خلوص ہے چاہے وہ محبت کا معاملہ ہو یا سیاست کا‌۔

١٦- ان کی غزلوں کے اشعار ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہوئے بھی غزل مسلسل کا مزہ دیتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہم غزل کے بجائے کوئی گیت پڑھ رہے ہوں۔

١٧- حسرت کا عشق بہت مذہبی ہے ان کا محبوب بآزاری نہیں بلکہ ایک پردہ نشین خاتون ہے جس کی عزت وعظمت کی شمع محفل میں جلنے کے بجائے حسرت کے چھوٹے سے گھر میں جلتی ہے- ان کا عشق اتنا پاکیزہ ہے کہ اس میں تصوف کی بھی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

١٨- حسرت کے ہاں دو رنگی نہیں ہیں بلکہ یکسوئی ہے اور یہ یکسوئی ان کی شخصیت میں بھی دکھائی دیتی ہے۔

١٩- حسرت نے جس حال ومقام میں اشعار کہے ہیں وہ بالفموم ان کے ذاتی کواف پر مبنی ہے ہے اس لئے ان کے کلام میں سادگی ہے ساختگی ہے تکلفی ہے اور روانی ہیں انداز بیان ملائیں اور شیریں ہے-

٢٠ – حسرت کے بعض اشعار میں اشتراکی رنگ جھلکتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اشتراکی نظر یہ کے بھی دلدہ تھے بلکہ وہ خالص اسلام کے پیرو تھے انہوں نے اشتراکی رجحان کو صرف سیاست اور ملک کی آزادی تک محدود رکھا تھا – وہ غریبوں کی زبوں کو دیکھ کر معاشی انقلاب کی بھی حمایت کرتے تھے مگر روس کی دھریت سے ان کا دور تک کا علاقہ بھی نہ تھا۔

غرض یہ کہ ان کے کلام کو پڑھ کر ہم بیک وقت کئی شاعروں کے کلام کا مزہ لے سکتے ہیں- حسرت نے اردو غزل کو ایک نیا رخ دیا جو کہ اس وقت بڑا کام آیا۔ بعد میں جدید شاعری کو برتنے میں حسرت کی غزلوں کے انداز کو اپنایا گیا۔

تحریر ارویٰ شاکر