فیض احمد فیض

0

حالات زندگی

فیض ۱۳ فروری ۱۹۱۱ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم مولوی ابراہیم سے حاصل کی اس کے بعد انگریزی تعلیم کی طرف بھیجے گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے عربی اور انگریزی دونوں مضامین میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد امرتسر کے MAO کالج میں لیکچرار ہوگئے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران جب ہٹلر نے روس پر حملہ کر دیا تو فیض کالج سے ملازمت چھوڑ کر فوج میں بھرتی ہو گئے۔ یہاں ان کا تقرر کیپٹن کے عہدے پر ہوا اور ان کے ذمے PRO کا کام تھا۔ ۱۹۴۴ میں آپ کو لیفٹیننٹ کرنل بنا دیا گیا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد آپ ملازمت چھوڑ کر پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر ہو گئے۔ ۱۹۵۱ میں آپ کو راولپنڈی سازش کیس میں حکومت پاکستان نے چار سال کے لئے جیل بھیج دیا اور آپ کی زیادہ تر نظمیں انہیں جیلوں کے اندر لکھی گئی ہیں۔ ۱۹۸۴ کو لاہور میں انتقال فرمایا۔

فیض کے کلام کے فکری و فنی محاسن

بیسویں صدی میں جن تین شعراء نے خاص شہرت حاصل کی تھی وہ ہیں اقبال جوش اور فیض۔ فیض احمد فیض ایک کٹر اسلامی گھرانے میں پیدا ہوئے اور ان کی تعلیم بھی ابتدا میں نامور علماء کے زیر سایہ ہوئی تھی، مگر تعلیم کے بعد جب ملازمت میں آئے تو امرتسر آکر ان کا ذہن خالص اشتراکی ہو گیا اور رفتہ رفتہ وہ مارکس اور لینن کے اتنے گرویدہ ہوگئے کہ اسلام سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔

بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی حالات جس میں روسی انقلاب سے لے کر ناسیزم اور دوسری جنگ عظیم سب شامل ہے انہیں بہت متاثر کیا اور انہوں نے مزدوروں کے مسائل میں دلچسپی لی اور کئی کئی ٹریڈ یونینوں کے بھی صدر رہے۔ ان سب باتوں کا ان کی شاعری میں براہ راست اثر پڑا۔ زمانے سے بغاوت کی وجہ سے ہی فیض کا شمار ترقی پسند شاعروں میں ہوتا ہے۔

ترقی پسند رجحانات اس زمانے میں فکر و نظریے سے زیادہ ایک فیشن تھے اور ہر کوئی جو روایات اور مذہب کا باغی تھا وہ ترقی پسند بن جاتا تھا۔ یہ ایک باقاعدہ تحریک تھی جس کا مقصد ادب کو زندگی کے مسائل خاص کر روٹی سے جوڑنا تھا اور سیاسی اقتدار اس منزل تک پہنچنے کا زینہ تھا۔ فیض بھی اپنے کلام میں اشتراکیت کے حامی اور رومانیت کے علمبردار نظر آتے ہیں ان کی فکر ایک طرف ترقی پسند تحریک کی رہنمائی فراہم کرتی ہے تو دوسری طرف اسی سے رہنمائی بھی قبول کرتی ہے۔

فیض کی شاعری کی فنی خوبیوں کا خلاصہ درج ذیل ہے

۱ – فیض کا مغربی ادب کا مطالہ بہت وسیع تھا جس کے زیراثر انہوں نے زندگی کے حقائق اس کی تلخیوں اور رنگینیوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ماضی کی تنزیل پذیر تہذیب شان و شوکت اور عیش و سر مستی کے غم کا اظہار انہوں نے اپنی نظموں میں کیا ہے۔

٢ – ان کی نظموں میں جذبے کی شدت جمالیاتی عناصر لہجہ اور اسلوب کی حلاوت ملتی ہے۔ ان کے کلام میں رومانیت کے ساتھ ساتھ رجائیت اور اور امید آفرینی پائی جاتی ہے جو کہ مارکس کی دین ہے۔

۳ – ان کی فکر گوئی انقلابی ہے مگر ان کا شعری آہنگ انقلابی نہیں ہے۔ ان کے یہاں جوش کی طرح نعرہ بازی گھن گرج جھلاہٹ اور خطیبانہ شان نہیں ہے بلکہ اس میں رہنمائی موسیقیت اور عنایت ملتی ہے۔

۴- فیض کے ہاں رقیب کا تصور بڑا نرالا ہے وہ رقیب سے نفرت نہیں کرتے بلکہ اسے اپنا رازدار بناتے ہیں۔

۵- تمثیلی پیرایا اور رمز و کنایہ بھی ان کی شاعری کا اہم جزو ہے۔

۶- مظلوموں مزدوروں اور زیر دستوں سے ہمدردی ان کی ضمیر میں شامل تھی مگر اگر انہوں نے یہ ہمدردی اشراکیت سے سیکھی تھی۔ اشتراکی ہونے کے باوجود ان کی شاعری میں کمیونزم کا کوئی عکس نہیں ملتا بلکہ اس کے برعکس ان کے کلام میں دو چیزیں ہر جگہ نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے
( الف) حسن و عشق کی واردات
(ب) زیر دستوں اور مظلوموں سے ہمدردی۔

۷- فیض انتہائی سادہ اور منکر المزاج شخص کے حامل تھے ان کا مزاج اتنا نرم تھا کہ انہوں نے کبھی کسی پر بھی غصہ نہیں آیا۔ انکی یہ نرمی ان کے کلام میں بھی جھلکتی ہے۔

۸ – ان کے کلام میں شاعری صرف شاہدہ ہی نہیں مجاہدہ بھی ہے اور اس تقاضےکو انہوں نے مجاہدین فلسطین کے صف میں شامل ہو کر پورا کیا ہے۔

۹ – ان کے خیال میں ہر وہ شے گھنونی بد صورت اور قابل نفرت و ملامت ہے جو کہ زندگی کے حسن کو مجروح کرے جس سے محبت کا خون ہوتا ہو اور جس کے باعث انسان کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا مناسب موقع نہیں ملتا ہے، چاہے وہ سرمایہ دارانہ نظام ہو یا جاگیرداروں کے رعایا پر مظالم یا معاشی بدحالی۔

۱۰ – ان کا لہجہ ایسیا حمایت لیے ہوئے کہ شائستہ مجازی کے بغیر اس سے لطف اندوز نہیں ہوا جاسکتا۔

۱۱- ان کی شاعری شروع سے لے کر آخر تک بڑی بےمزا ہے جو کسی کا بھی دل نہیں دکھاتی یہاں تک کہ سرمایہ داروں کا بھی نہیں جن کے فیض شدید مخالف تھے وہ ان کی مخالفت بھی بڑی نرمی سے کرتے ہیں۔

۱۲ – فیض کی شاعری غم کی شاعری ہے چاہیے غم سیاست کا ہو یا عشق کا- ان کے یہاں ہر چیز غمگین ہو جاتی ہے مگر فیض نے اس غم کو بھی بڑے خوشگوار پیرائے میں بیان کیا ہے۔

۱۳ – فیض کی شاعری غالب اور اقبال کی طرح توانا اور وسیع نہیں ہے بلکہ ایک حد میں رہ کر ہی آگے بڑھتی ہے اور چند گھسے بیٹھے موضوعات ان کی شاعری میں بار بار آتے ہیں۔

فیض کی ابتدائی شاعری کا محرک انتظار اور تنہائی ہے۔ اس کی وجہ شاید انکے عشق کی ناکامی ہے۔

فیض کی شاعری میں تنو ع اور ٹھہراؤ کی بھی کمی ہے ان کی شاعری کا دھیما پن طبیعت کو بوجھل کر دیتا ہے۔

تحریر ارویٰ شاکر