شیخ ابراہیم ذوق

0

حالات زندگی

شیخ محمد ابراہیم نام ذوق تخلص تھا دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حافظ غلام رسول شوق سے حاصل کی اور انہیں کے مکتب میں ذوق شعر و شاعری کا شوق پیدا ہوا۔شروع میں کلام پر شوق سے اصلاح کی۔ بعد میں نیعر کے شاگرد ہوئے۔ کتب بینی کا بہت شوق تھا چنانچہ جب شاہ نیعر سے شاگردی کا رشتہ منقطع ہوگیا تو خود مشق سخن کی عادت ڈالی اور کتابوں کا مطالعہ کیا۔

شاہ نیعر بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے۔ بادشاہ کے استاد ہونے سے ان کی شہرت بہت بڑھ گئی۔ شاہ نیعر حیدرآباد چلے گئے تو بادشاہ اپنا کلام بے قرار کو دکھانے لگے۔ مگر جب یہ بھی دہلی سے باہر چلے گئے تو بادشاہ کی نظر ذوق پر پڑی چنانچہ بادشاہ نے استاد کا شرف ذوق کو بخشا جو آخر تک ساتھ رہا۔

ذوق کا رنگ سانولا اور چہرے پر چیچک کے داغ تھے، آنکھوں کی بینائی بہت تیز تھی، ذہن بھی اعلی درجہ کا پایا تھا۔ اکثر سفید لباس میں مبلوث رہتے تھے۔ ان کے ایک ہی لڑکا تھا جس کا نام محمد اسماعیل تھا جو 1857 کے ہنگامے میں مارا گیا تھا۔ ان کے شاگرد بھی بہت تھے مگر سب سے زیادہ مشہور بہادر شاہ ظفر محمد حسین آزاد اور داغ ہوئے۔ ان تینوں نے استاد کے نام کو خوب روشن کیا۔ مومن اور غالب ان کے ہمعصر تھے۔

بہادر شاہ ظفر کے استاد ہونے سے ذوق کی شہرت کو چار چاند لگ گئے تھے۔ بادشاہ اپنے استاد کی بڑی عزت کرتے تھے۔ قصیدے کے بدلے میں بادشاہ نے ذوق کو جاگیر اور انعام و اکرام بھی عطا کیے جس سے ایک عرصہ تک فیضیاب ہوئے۔ نیز ان کو خاقانی ہند اور ملک الشعراء خطابات سے بھی سرفراز کیا گیا۔ آپ کا انتقال دہلی میں ہوا، مرنے کے چند لمحے پہلے انہیں اپنی موت کا یقین ہو گیا تھا۔ درج ذیل شعر اس کی پوری نمائندگی کرتا ہے۔

کہتے ہیں آج ذوق جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے

شاعرانہ عظمت و قصیدہ نگاری

ذوق اردو شاعری میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے قصیدہ گوئی کے فن کو خوب ترقی دی ہے اور اس میں بلند مقام حاصل کیا ہے۔ سودا کے بعد قصیدہ گوئی کے فن میں انہی کا نام آتا ہے، البتہ ان کی غزلوں میں وہ شان اور ندرت نہیں ہے جو ان کے قصیدوں میں ہے۔ اصل میں ذوق اپنے قصیدوں کی وجہ سے زندہ ہیں اور ان کا یہ کارنامہ ہمیشہ ان کی یاد تازہ کرتا رہے گا۔ ان کے قصائد میں الفاظ کی شان وشوکت، ترکیبوں کی دلآویزی اور بندش کی چستی پائی جاتی ہے۔

فنی اعتبار سے ذوق کا مقام بہت بلند ہے۔ زبان پر پوری قدرت ہے، محاوروں کو اشعار میں ایسا جڑتے ہیں جیسے انگوٹھی میں نگ۔

خود کوچہ قاتل میں گیا پھر وہ نہ آیا
کیا جانے مزہ کیا ہے جینا نہیں آیا

ذوق نے قصیدے کے فنی تقاضوں کو بڑی حد تک پورا کیا ہے۔ ان کی سادہ شخصیت کی طرح سادہ اسلوب قصیدے کے لئے موزوں نہیں کیونکہ قصیدے کے لیے پرشکوہ اور گھن گرج والے لب و لہجے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر بھی ذوق نے بھاری تراکیب سے یہ کمی بڑی حد تک پوری کردی ہے۔ قصیدے کے اجزائے ترکیبی میں بڑا وزن نظر آتا ہے۔

ذوق نے تشبیب میں اپنی فنکارانہ صلاحیت کا خوب مظاہرہ کیا ہے۔ کہیں کثرت مبالغہ سے ان کی تخلیق کردہ تصاویر بڑی دھندلی ہوگئی ہے لیکن جہاں توازن سے کام لیا ہے وہاں ان کی تشبیبوں میں غضب کا حسن پیدا ہوگیا ہے۔ محاکات اور منظر نگاری اپنے شباب پر نظر آتی ہے۔

تشبیب کے بعد گریز کا نمبر آتا ہے، یہ دراصل تشبیب اور مدح کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ ذوق کی گریز عام طور پر بہت کامیاب ہے ان میں موزونی اور برحبتگی ہے۔

گریز کے بعد مد ح کا مرحلہ آتا ہے۔ یہی حصہ قصیدے کی روح ہوتا ہے- ذوق نے مد ح میں بڑا زور طبع کھایا ہے۔ مبالغہ آرائی شکوہ الفاظ و تراکیب اور روز بیان سے ایک طلسمی فضا پیدا کر دی ہے۔ صنایع و بدایع یا اور دلکش تشیحات و استعارات سے اپنے مدیحہ مضامین میں رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے۔ ذوق دعائیہ اشعار بڑے سادہ مگر پرخلوص ہوتے ہیں۔

اس طرح ذوق کے قصائد بڑی حد تک معیاری ہیں۔ اپنی علمیت اور معنی آفرینی میں وہ ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ ذوق نے علمی اصطلاحات کو استعمال کرکے اس قصائد عید کی افادیت میں اضافہ کردیا ہے۔ دراصل ذوق نے اپنے علم کے ذریعے اپنے قصائد میں شکوہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی علمیت کا اظہار کرنا چاہا ہے اور وہ اپنے مقصد میں بڑے حد تک کامیاب ہو چکے ہیں۔

ذوق کے یہاں ہمیں سماجی شعور نہیں ملتا۔ چاہتے تو وہ شاہی فضا سے باہر نکل کر اپنے گرد و پیش کے حالات پر روشنی ڈال سکتے تھے لیکن وہ اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے مجبور تھے۔ انہوں نے اپنی علمیت مضمون آفرینی مبالغہ آرائی صنائع و بدائع کے استعمال سے اپنے قصائد کے فنی اور فکری کمیوں کو بڑی حد تک دور کر دیا ہے۔

تحریر ارویٰ شاکر