مرزا محمد رفیع سودا

0

مرزا محمد رفیع نام اور سودا تخلص تھا ، دہلی میں پیدا ہوئے- ان کے والد تجارت کی غرض سے ہندوستان آئے تھے- ابتدا میں عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی- پہلے سلیمان علی خاں داد اور پھر شاہ حاتم کے شاگرد ہوئے- شعر و شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا پہلے فارسی میں شاعری شروع کی بعد میں خان آرزو کے مشورے سے اردو کی طرف متوجہ ہوئے کہ آفتاب بن کے چمکے- جب ان کی شہرت دور دور تک پہنچی تو شاہ عالم بادشاہ نے انہیں مشورہ سخن کی عزت سے نوازا-

جب دہلی کی حالت تباہ ہوگئی تو دلی سے شعراء لکھنؤ و دیگر مقامات کی طرف کوچ کرنے لگے تو سودا بھی ساتھ پینسٹھ سال کی عمر میں دہلی سے فروخ آباد آئے اور نواب احمد خان کے یہاں مقیم ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد لکھنؤ پہنچے وہاں نواب شجاع الدولہ کی ملازمت حاصل کی- انہوں نے سودا کو بڑی عزت و توقیر سے رکھا۔ نواب صاحب کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے نواب آصف الدولہ تخت نشین ہوئے- انہوں نے سودا کا دو ہزار روپے سالانہ وظیفہ مقرر کر دیا اور ملک الشعراء کے خطاب سے نوازا۔ مرزا کی آخری زندگی عیش و آرام سے گزری اور لکھنؤ میں وفات پائی۔

سودا نے تقریبن تمام اصناف سخن پر طبع آزمائی کی ہے لیکن سب سے مشہور قصیدہ گوئی ہے۔ قصیدہ گوئی اور ہجو گوئی میں آج تک ان کا ثانی نہیں ہوا- البتہ قصیدہ گوئی میں ذوق سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ مضامین میں جدت اور الفاظ و تراکیب میں ندرت پائی جاتی ہے- ان کے کلام میں شوخی بھی ہے- اصل میں مرزا قصیدے کے بادشاہ ہیں- انہوں نے اس فن کو خوب ترقی دی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے قصائد میں شوکت الفاظ اور نئی تشبیہات و استعارات کے علاوہ مضمون آفرینی کے عمدہ نمونے بھی ملتے ہیں۔سودا کے شاگردوں کی تعداد خاصی طویل ہے- ان میں میر امانی قائم راخم ماہر ہادی خاص طور پرشامل ہیں۔

سودا نے بے شمار قصائد لکھے جن میں حمد نعت منقبت مد ح ہجو شہر آشوب و غیرہ موجود ہیں- وہ جس طرح کے شاعر تھے ا سی طرح انکی ہجّو بھی بے پناہ تھی- زور بیان شوکت الفاظ مضمون آفرینی واقعہ نگاری تشبیہات و استعارات کی جدت غرض تمام خوبیاں جو قصیدہ نگاری کے لئے لازم سمجھی جاتی ہیں ان کے یہاں موجود ہیں۔ محمد شاہ کے دور سے آصف الدولہ کے زمانے تک سیاسی اور سماجی حالات پر نظر پڑتی ہے۔ روانی اور برحبتگی سودا کے قصائد میں ملتی ہے۔

سودا کے قصیدے فنی معیار پر بھی پورے اترتے ہیں ان کے قصائد کے تمام اجزائے ترکیبی مکمل ہوتے ہیں۔ سودا کے قصیدے عمدہ تشبیہات سے مالا مال ہیں ان تشبیہات میں سودا نے اپنی جدت پسندی سے نئے پھول کھلا دیے ہیں۔ ان میں غیر معمولی تنو ع ہے- کہی بہار کا ذکر کرتے ہیں تو ایسا منظر پیش کرتے ہیں جیسے بہار اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ کھڑی مسکرا رہی ہو۔

شکایت زمانہ پر اترتے ہیں تو شہرآشوب تیار کرتے ہیں۔ وہ فنون کی اصطلاحات بیان کرتے ہیں تو فلسفہ و حکمت ان کی گھر کی لآؤندی نظر آنے لگتی ہے- ان تشبیہات میں تنوع مضامین کے ساتھ ساتھ سودا نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا بھی پورا پورا ثبوت دیا ہے۔ سودا مدح کے میدان میں سربلند نظر آتے ہیں سودا نے اپنے تخیل اور اسلوب کے ذریعے قصیدے کے اس حصے کو ناقابل شکوہ عظمت عطا کی ہے۔

سودا کے قصائد سے پتہ چلتا ہے کہ وہ گہرا سماجی شعور رکھتے تھے- وہ اپنے عہد کے ترجمان ہیں انہوں نے اس زمانے کے سیاسی و معاشرتی حالات کا بہترین نقشہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے اپنے زمانے میں تہذیبی اور معاشرتی زوال پر ماتم کیا ہے۔ سودا زندگی کے تضادات اور کھردرے پن پر بظاہر ہنستے نظر آتے ہیں لیکن ان کی ہنسی کی تہہ میں اشکوں کا ایک طوفان ہے۔

سودا نے قصیدہ نگاری اور ہجونگاری کو کمال تک پہنچایا ہے جس کے سبب سودا ہر دور میں قصیدے کے بادشاہ کہلاے- سودا نے فارسی کے قصیدے کی روح کو اردو کے قصیدے میں سمو لیا ہے ان کی خصوصیات کے سبب سودا کو اردو قصیدہ نگاری کا پیغمبر مانا جاتا ہے۔

تحریر ارویٰ شاکر