اکبر الہ آبادی کی شاعری کی خصوصیات

0

اکبر حسین نام اور اکبر تخلص تھا۔ ۱۸۴۶ء میں الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سرکاری اسکول میں حاصل کی پھر نائب تحصیلدار ہوگئے۔ پھر وکالت کا امتحان پاس کیا اور وکالت کرنے لگے اور ١٨٨٨ میں الہ آباد میں ہائی کورٹ میں جج مقرر ہوئے۔ انگریزی حکومت نے آپ کو خان بہادر کا خطاب عطا کیا۔ ۱۹۲۱ میں الہ آباد میں انتقال فرمایا۔

اکبر ایک تاریخ ساز شاعر

اکبر کو تاریخ ساز شاعر کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے دور کی معاشرت و تہذیب کو اپنی شاعری میں جگہ دی اور اس کی صحیح ترجمانی کی۔ ان کے زمانے میں چاروں طرف صرف انگریزی تہذیب کا چرچہ تھا۔ انگریزی تعلیم کے راستے سے ہماری قومی تہذیب کی متاعِ لٹ رہی تھی۔ بےپردگی عام ہوگئی تھی اور ہندوستانی عوام انگریزی کی نقالی میں بندر بن گئے تھے۔ اکبر کو ان حالات سے بڑی شکایت تھی وہ قوم کی اصلاح کرنا چاہتے تھے مگر وہ وہ حالی اور شبلی کی نصیحتوں کا حشر دیکھ چکے تھے لہذا انہوں نے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے قوم کی حالت پر آنسو بہانے کے بجائے خوب قہقہے لگائے اور لوگوں کو اتنا ہنسایا کے آنسو نکل پڑے۔ اس کے بعد طنز کا نشتر گھونپ کر انہیں بیدار کرنے کی کوشش کی۔

اکبر کی شاعری قومی و ملی شاعری ہے کیونکہ وہ اپنی شاعری کی مدد سے پوری قوم کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ اکبر کو قوم کی لٹتی ہوئی تہذیب کا بڑا احساس تھا اس لیے انہوں نے طنز و ظرافت کا سہارا لیا۔ ظرافت اکبر کے کلام کی روح ہے۔ بے پردگی، مغرب کی کورانہ تقلید اکبر کے کلام کے خاص موضوعات ہیں۔ اکبر کا سر سید سے اختلاف محض اس وجہ سے تھا کہ وہ مفاہمت اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کو انگریزی تعلیم کی طرف لے جانا چاہتے تھے جب کہ اکبر اس کے مخالف تھے۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کی فلاح اس میں ہے کہ مسلمان اپنے اسلاف کی طرف لو ٹیں اور دین و حق سے رشتہ جوڑیں۔

آپ نے اردو شاعری میں اخلاقی اور فلسفیانہ مضامین کو بھی ظرافت کے انداز میں بیان کیا ہے اور بڑے بڑے مسئلو ں کو چٹکی بجا کے حل کیا ہے۔ اکبر نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ان میں مشرق و مغرب کی زندگی کا موازانہ، اخلاق و تعلیم کی صحیح روشنی، اردو ہندی کا جھگڑا، ہندو مسلم اتحاد اور اصلاح قوم خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

اکبر کے ہاں طنز و مزاح کے پیچھے ایک پورا مقصد کارفرما ہے۔ ان کا کلام جب ہماری سماعت سے گزر کر ہمارے ذہنوں میں اترتا ہے تو ہمارے شعور کو جھنجوڑ دیتا ہے اور اس سے ہماری آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ یہ اکبر کا کمال ہے کہ ان کا کلام ناصحانہ ہوتے ہوئے بھی نہ تو کبھی ناگوار گزرتا ہے اور نہ یاد خاطر بنتا ہے۔ ان کے اشعار پر اثر ہونے کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ ان کی بنیاد میں حقائق کارفرما تھی۔ اکبر کی شاعری محض جذباتی یا تخیلاتی نہیں ہے بلکہ حقیقت پسندانہ ہے۔

اکبر اپنے زمانے کی ذہنی، سیاسی اور سماجی کشمکش سے پوری طرح آگاہ اور متاثر تھے۔ چنانچہ نہ صرف انہوں نے اس کی عکاسی کی ہے بلکہ ایک حساس ذہنی کے ساتھ اس پر تنقید بھی کی ہے۔ ان کی تنقید میں خلوص ہے اور اس کا مقصد اصلاح ہے۔

اکبر اردو میں سب سے بڑے طنزنگار شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ غالب کی طرح ان کے طنز و مزاح کا دائرہ محدود نہیں ہے بلکہ وسیع ہے۔ ان کے ہاں بہت لطیف اور رچا ہوا تغزل ہے جس سے ان کی ظرافت بہت دل کش اور لطیف ہو جاتی ہے۔ سودا کی طرح وہ کبھی ذاتیات پر نہیں اترتے بلکہ پورے معاشرہ کو اپنے طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔ اکبر تعمیر ی تنقید کے فن میں ماہر ہیں۔

اکبر عورتوں کی آزادی کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عورت کا صحیح مقام گھر کی چار دیواری ہے۔ مساوات کی تحریک کا جو اثرات ہندوستانی تہذیب پر پڑھ رہے تھے اکبر اس سے سخت نالاں تھے۔ وہ ان عورتوں پر جو کالجوں میں پڑھکر کلبوں کی زینت بنتی ہیں، طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں ہیں؀

حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی
اب ہے شمع انجمن پہلے چراغِ خانہ تھی

اکبر تعلیم نسواں کے سرے سے مخالف نہ تھے بلکہ حدود کے اندر اس کو درست مانتے تھے۔ وہ اسکولوں اور کالجوں کو مغربی تہذیب کے زہریلے اثرات کے پنپنے کی جگہ سمجھتے تھے اور یہ مانتے تھے کہ لڑکے ان کالجوں میں پڑھ کر اپنی روایت بھول جائیں گے۔ اکبر مشرقی تہذیب کی روایت کے دلدادہ ہیں اور اس کی تعریف میں غلو سے کام لیتے ہیں۔ اس کے برکس مغرب کی ہر بات میں ان کو عیب نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس کی اچھی باتوں کو بھی تنگ نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ مغربی تہذیب کی مخالفت اس شدت سے کرتے ہیں کہ اس سے تعصب کی بو آتی ہے۔

اکبر کو اپنے دور کی سیاست سے کچھ خاص دلچسپی نہ تھی۔ وہ جس سیاسی رہنما کو بہتر سمجھتے تھے خود کو اس کے ساتھ خیال کرتے تھے اور جس کو ناپسند کرتے تھے اس پر خوب طنز کرتے تھے۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گو کہ اکبر سرکاری ملازم تھے پھر بھی ان کا رجحان قومی آزادی کی تحریکوں کی طرف تھا۔

تحریر ارویٰ شاکر