Advertisement
Advertisement

ولی محمد نام اور نظیر تخلص تھا۔ 1735ء میں دہلی میں پیدا ہوئے- آپ کا بچپن اور جوانی دونوں دلی میں گزرے۔ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی دونوں کے دلی پر حملوں کو آنکھوں سے دیکھا اور اثر قبول کیا۔ اس کے بعد دلی سے آگرہ چلے گئے اور وہیں کے ہو کے رہ گئے۔ طبیعت میں منچلا پن غالب تھا اس لئے ان کی عمر کا زیادہ حصہ کھیل کود اور سیر و تفریح میں گزرا۔ آگرہ میں انتقال فرمایا۔

Advertisement

نظیر کی شاعری کے فکر وفن کو ہم مندرجہ ذیل عنوانات میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

کلام میں ہندوستانی تہذیب

ان کی شاعری میں ہندوستان کی زندگی اور وہاں کی تہذیب و روایات چھائی ہوئی ہے‌۔ وہ پہلے شاعر ہیں جن کے کلام کو پڑھ کر ہندوستان کی معاشرت اور رسم و رواج کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہاں کے مختلف ہندو اور مسلم تہواروں کا ذکر، تہواروں پر یہاں کی مختلف رسمیں، لوگوں کا رہن سہن اور ذہنی سطح اور یہاں کی طرزِ معاشرت وغیرہ پر جو کچھ نظیر نے کہا ہے وہ اس سے قبل نہ کہا گیا اور نہ اس کے بعد۔ ہولی کا منظر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

Advertisement
“ہر آن خوشی میں سب ہنس ہنس رنگ چھڑکتے ہیں
رخسار گلا لو سے گلگوں سے کپڑوں سے رنگ ٹپکتے ہیں
کبھی راگ و رنگ چمکتے ہیں کچھ سے سے جام چھلکتے ہیں
کچھ کودیں ہیں کچھ اچھلے ہیں کچھ ہنسے ہیں کچھ کمتے ہیں
یہ طور یہ نقشہ عشرتِ کا ہر آن بنایا ہولی نے”

نظیر ہندوستانی تہذیب و روایت کو مذہبی اصولوں کی بنیاد پر نہیں پیش کرتے بلکہ وہ اسے محض ایک رسم خیال کرتے ہیں۔ وہ ان رسموں میں خود بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں- انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے تیوہاروں کو برابر کا درجہ دیا ہے اور دونوں کو مسادی طور پر اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ ان کی شاعری انہی خوبیوں کی وجہ سے عام لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ اس لئے نظیر کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔

Advertisement

انہوں نے زیادہ تر عوام کے مسائل پر طبع آزمائی کی ہے اور عوام کی مشکلات کو سمجھا ہے۔ پوری شاعری میں ان کا انداز کہیں بھی خزینہ نہیں ہے بلکہ اس میں ایک تڑپ ہے مستقبل کے لئے ایک امید ہے اور عوام کے لئے نصیحت۔ یہ الگ بات ہے کہ نظیر پند و نصاح اپنی زبان سے بہت کم ہی کرتے ہیں۔ زیادہ تر معاملہ کو بیان کرنے کے بعد فیصلہ دوسروں پر چھوڑ دیتے ہیں۔

ہندوستانی معاشرہ جو اس وقت معیشت کی تباہی کی وجہ سے چرمرا رہا تھا اور لوگوں کی زندگی عذاب بنی ہوئی تھی اس پر آپ نے اظہار خیال کیا ہے- انہوں نے مظلومی کی جن قیادتوں کا ذکر کیا ہے اس کی بنیاد حقائق پر ہے اور اپنے زمانے کی سماجی ابتری کا مرقع ہے مگر فیض یا مجاز کی طرح وہ مایوس ہو کر گریہ آوزاری نہیں کرتے بلکہ توکل اور تقدیر پر بھروسہ کرتے ہیں جو کہ ہندوستانیوں اور ان کی تہذیب کا خاص حصہ ہے۔ بس ایک کمی جو ہمیں نظیر کی فکر میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ نظیر یہاں کے غلط رسموں کو بھی ہوا دیتے ہیں اور خود بھی عملاً ان میں شریک ہوتے ہیں۔

آپ نے بچوں اور بڑوں دونوں کے لئے الگ الگ نظمیں لکھی ہیں۔ نظموں کی زبان عوامی اور آسان ہونے کی وجہ سے عوام میں بہت مقبول ہوئی ہیں۔

Advertisement

نظیر کی ہمہ گری

ان کا جزیات کا مطالعہ اور حقائق کا مشاہدہ اتنا وسیع تھا کہ کوے سے لے کر پرکاہ تک کوئی بھی چیز ان کی نظر سے چھپی نہیں ہے۔ آہنگ کا شعر اتنا زبردست ہے کہ ایک غیر متوازن چیز سے بھی وہ بلا کا توازن پیدا کردیتے ہیں اور سب سے بڑی بات ہے کہ انہوں نے زندگی کے تقریباً ہر موضوع پر طبع آزمائی کی ہے اور معاشیات اور معاشریت کا کوئی بھی پہلو ان سے اچھوتا نہیں ہے۔ امیر، غریب، رند، زاہد، بادشاہ، فقیر، ہندو، مسلمان، بچے، بوڑھے سب کی دلچسپی کا سامان ان کی شاعری میں موجود ہے اور کمال بات یہ ہے کہ نظیر کا کوئی بھی رنگ سخن ایسا نہیں ہے جس میں واقفیت نہ پائی جاتی ہو اور اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ انہوں نے ہر طبقہ کے لوگوں سے محبت رکھی ہے اور ان میں اٹھے بیٹھے ہیں۔

نظیر صرف ایک عوامی شاعر نہیں تھے بلکہ وہ خواص کے بھی شاعر تھے اور وہ جب ان کے لیے شعر کہتے ہیں تو تراکیب اور لفظی شان و شوکت کا اہتمام کرتے ہیں اور ساتھ ہی صنائع و بدآئع کی بھی بھرمار ہوتی ہے۔

نظیر نے اپنی زندگی میں مرزا مظہر سے ناسخ تک تقریبا ۱۴ بڑے شاعروں کا زمانہ دیکھا ہے اس لئے ان کے کلام میں ہمہ گری اور تنوع ہونا ضروری اور فطری ہے اور اشعار میں کئی بڑے شعراء کا رنگ بھی جھلکتا ہے۔ منظر کشی میں تو انگریزی شعرا بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

نظیر کے یہاں اخلاقی محاسن بھی خوب ملتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی ایک نیک فطرت انسان تھے۔ انسانی دوستی کی قدر کرنے والے اور لوگوں سے اچھے انداز میں پیش آنے والے تھے مگر انہوں نے اپنی زبان سے لوگوں کو پند و نصائح بہت کم کیے ہیں۔

Advertisement

آپ کے کلام میں سادگی اور سلاست ہے۔ الفاظ کے برمحل استعمال سے اس میں مزید حسن پیدا ہوگیا ہے۔ مناظر فطرت کی مرقعہ کشی میں آپ کو کمال حاصل ہے۔ آپ کا کلام صنائع و بدائع سے بھی مالا مال ہے۔ پورے کلام میں تشبیہات و استعارات کی بھرمار ہے۔

تحریرارویٰ شاکر

Advertisement