ولی دکنی

0

ولی محمد نام اور ولی تخلص تھا۔ اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ علم حاصل کرنے کے لئے آپ نے دہلی اور گجرات وغیرہ کے سفر کئے۔ احمد آباد میں خواجہ وجیہ اللہ کی خانقاہ میں تعلیم پائی اور دیگر صوفیوں سے بھی فیض حاصل کیا۔

آپ نے غزل کے انداز میں اردو شاعری کی۔ آپ اورنگزیب کے دور حکومت میں دکن سے دہلی آئے۔ آپ نے یہاں کے شعرا کو متاثر کیا اور ان کا اثر بھی قبول کیا۔ احمد آباد میں انتقال فرمایا۔

ولی کے مزاج و فکر میں بھگتی، سادگی، تصوف غالب تھا۔ ان کے یہاں جنس پرستی بھی دین و ایمان کا جز مانی جاتی تھی۔ طبعیت میں رنگینی اور ایک خاص محبوب کی پرست کا رجھان تھا۔

سراپا نگاری اور بت پرستی کا رجحان ان کے کلام کا خاص وصف ہے۔ کیونکہ مزاج میں تصوف تھا اس لئے غزلوں میں درد کی کسک اور تاثیر بھی نمایاں نظر آتی ہے ہے۔ ولی سے قبل اردو شاعری کا رنگ بڑا پھیکا اور بے مزہ تھا۔ ولی نے اس میں لطافت اور شیرنی پیدا کرکے غزل کے مزاج کو ایک نیا رنگ بخشا۔

جمال پرستی ہر جگہ ان کی غزلوں کو غذا فراہم کرتی رہی۔ ولی نے زیادہ تر چھوٹی بحروں میں غزلیں کہیں ہیں مگر مضمون کی ادائیگی بڑی پرلطف ہے۔ جمال پرستی اور سراپا نگاری کی وجہ سے ان کی غزلیں بڑا مزہ دیتی ہیں۔ ان کے اشعار کو پڑھ کر ہم حسینوں کے سراپا سے بخوبی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

ولی کے یہاں فارسی غزل کی علامت اور تلمیحات کے علاوہ بنسی، پان، بان کرشن، بھجانگ، بھوجنگ، ترنگ اور گوبی جیسے سیکڑوں الفاظ ہیں جو دکن کے مظاہر اور اشیاء سے ولی کی گہری وابستگی کو ظاہر کرتے ہیں۔

ولی کی غزلوں میں جو جو رمز ہے وہ دوسرے شاعروں کے ہاں نہیں ملتا۔ ولی کا ایک عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے شمالی ہند کے شعرا کو غزل گوئی کی طرف راغب کیا اور فارسی کی تمام خوبیاں اردو میں رائج کی۔ جہاں تک زبان کا معاملہ ہے تو ان کے یہاں زبان کی صفائی اور ستھرائی بھی خوبی ہے۔ اس کی سلاست اور روانی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے اس میں آج کی زبان کی جھلک ہے۔

پرانے اور مانوس الفاظ کے استعمال سے کہیں کہیں الجھن محسوس ہوتی ہے مگر اس کے باوجود ادائیگی میں جو بے ساختگی ہے اس سے نفس مطلب کو اخذ کرنے میں دقت نہیں ہوتی۔ فارسی اور ہندی الفاظ کے استعمال کا جو حسین سنگم آپ کے ہاں ملتا ہے وہ اردو کے کسی اور شاعر کے ہاں ناپید ہے۔

ان کی غزلوں میں جمال پرستی کا عنصر اتنا غالب کہ دل کو عجیب سا سرور محسوس ہوتا ہے۔ ان کا کلام عشق کے بیسیوں قصّوں سے بھرا پڑا ہے۔ عشق میں ظاہر داری ہے۔ ان کا کلام وصل کے واقعات اور چھیڑ چھاڑ کے واقعات سے بھرا ہوا ہے۔ صوفی ہونے کی وجہ سے ان کے کلام میں عشق حقیقی کا رنگ ملتا ہے، مگر اس کا انداز ایسا ہے کہ ان اشعار کو عشق مجازی پر آسانی سے چسپاں کیا جا سکتا ہے۔

ولی نے ہر بحر میں غزلیں کہی ہیں اور غزلوں میں ہندوستانی رنگ اور تہذیب کی پوری جھلک ملتی ہے۔ انہوں نے ہندوستانی حکایتوں کو روزمرہ کی زبان میں پیش کیا ہے۔ ولی کو اس زمانے کا نمائندہ شاعر کہہ سکتے ہیں جس نے ایک پوری نصف صدی کو متاثر کیا ہے اور آج بھی دنیائے اردو پر چھائے ہوئے ہیں۔