ہستی اپنی حباب کی سی ہے

0

شاعر : میر تقی میر۔

تعارفِ غزل :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام میر تقی میر ہے۔

تعارفِ شاعر :

میر تقی میر آگرے میں پیدا ہوئے۔ آپ کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ آپ کی غزلوں میں انسانی جذبات ، درد و غم ، خود داری ، توکل ، قناعت پایا جاتا ہے۔ آپ کے علمی سرمائے میں چھ دیوان ، اردو شعرا کا ایک تذکرہ ، متعدد مثنویاں ، مرثیے ، ایک سوانح حیات اور ایک فارسی دیوان شامل ہے۔ میر تقی میر کا سارا کلام کلیاتِ میر کی شکل میں موجود ہے۔

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے

تشریح :

اس غزل میں شاعر زندگی پر غور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ پانی کا بلبلہ ہے۔ یہ دنیاوی زندگی عارضی ہے بلکل بلبلے کی طرح جو ہمیشہ کے لیے نہیں ہے بس چند ساعت کے لیے ہے۔ دنیا کی زندگی ہمیشگی کی زندگی نہیں ہے یہ تو بس ایک فریب ہے خواب ہے۔ زندگی صحرا کا سراب ہے جو دور سے دیکھنے پر پانی معلوم ہوتا ہے۔ پیاسے اس پانی کی جستجو میں سفر کرتے جاتے ہیں مگر وہ سراب جو پانی ہے ہی نہیں دور ہوتا جاتا ہے بالکل ایسے ہی یہ سب کچھ دھوکے کا سامان ہے اٹل ہے تو بس موت ہے۔

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

تشریح :

اس غزل کو میر تقی میر نے لکھا ہے۔ میر تقی میر متعدد شعراء کرام کے استاد شاعر ہیں۔ اس غزل میں وہ اپنے محبوب کے حسن و جمال کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا محبوب سب سے خوبصورت ہے۔ میرے محبوب کی ادائیں سب سے منفرد اور حسین ہیں۔ وہ محبوب کے ہونٹوں کی تعریف کرتے ہوئے ان کو گلاب کے پھول کی پتی سے تشبیہ دیتے ہیں کہ میرے محبوب کے ہونٹ نرم و نازک ہیں۔ ان پر گلاب کی سی سرخی ہے۔ شاعر اپنے محبوب کے اوصاف کی تعریف کرتا ہے تو روایت سے ہٹ کر، عموماً لوگ محبوب کی آنکھوں پر اشعار کہتے ہیں مگر یہاں میر نے محبوب کے گلابی ہونٹوں کی تعریف کی ہے۔

چشم دل کھول اس بھی عالم پر
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے

تشریح :

اس غزل کو میر تقی میر نے لکھا ہے۔ میر تقی میر متعدد شعراء کرام کے استاد شاعر ہیں۔ اس شعر میں وہ انسانوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے انسان تم دنیا کے دھوکے میں کھو گئے ہو یہ سب تو دھوکا اور فریب ہے۔ تم جس دنیا میں مصروف ہو وہ یہ کھیل تماشہ چار دن کا ہے مگر جو خدا کی ذات جاویداں ہے اسے بھول بیٹھے ہو۔اس دنیا کے دھوکے میں مستغرق ہونے سے اچھا ہے اللہ کی یاد میں وقت لگاؤ تاکہ تم اس کی نظر میں آجاؤ۔ اس شعر میں میر نے ہمیں دنیا کی حقیقت دکھائی ہے وہ دنیا کو خواب سے تشبیہ دیتے کہ جیسے خواب حقیقت نہیں ہوتا ویسے ہی یہ دنیا بھی حقیقت کی زندگی نہیں ہے۔ وہ انسان کو آخرت اور محشر کی یاد دہانی کرواتے ہیں۔وہ باطن کو پہچاننے اور حقیقت کی آگاہی دے رہے ہیں۔

بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے

تشریح :

اس غزل کو میر تقی میر نے لکھا ہے۔ میر تقی میر متعدد شعراء کرام کے استاد شاعر ہیں۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ دید یار کے لیے بار بار اس کے کوچے کو جاتا رہا ہوں مگر میری تمنا پوری نہیں ہوتی۔ میں کوچۂ یار سے ناکام لوٹتا ہوں۔ محبوب کا نظرانداز کرنا اور بےرخی برتنا مجھے میرے مقصد میں ناکام کر دیتا ہے۔ مجھے میرے مقدر میں ناکامی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ مگر میں ہمت نہیں ہاروں گا بار بار محبوب کے در پر جا کر اپنی تمنا کو پورا کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں جو اس کےکوچہ کو چلا جاتا ہوں اور ناکام لوٹ آتا ہوں یہ میرےاختیار میں نہیں میرے قدم خود اس جانب اٹھ جاتے ہیں۔ محبوب کی بےرخی اور اپنے بے چین دل کے ہاتھوں قرار نصیب نہیں۔

میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے

تشریح :

اس غزل کو میر تقی میر نے لکھا ہے۔ میر تقی میر متعدد شعراء کرام کے استاد شاعر ہیں۔ اس شعر میں کہتے ہیں کہ جب محبوب سے بات کرنے کو میں نے لب وا کیے تو پھر وہی بے رخی کا سامنا کرنا پڑا۔ میری صدائیں سن کر جب محبوب نے ناگواری سے کہا یہ صدا اسی خستہ حال عاشق کی ہے تو میرا دل اضطراب کی کیفیت میں چلا گیا۔اس کی بےرخی تو اپنی جگہ مگر جب وہ مجھ دیکھ کر ناگواری سے مجھے ناکام عاشق کہتا ہے تو مجھے مزید تکلیف ہوتی ہے۔ شاعر بےرخی تو سہہ لیتا ہے مگر اس قدر توہین کو برداشت کرنا اس پر گراں گزرتا ہے۔

آتش غم میں دل بھنا شاید
دیر سے بو کباب کی سی ہے

تشریح :

اس غزل کو میر تقی میر نے لکھا ہے۔ میر تقی میر متعدد شعراء کرام کے استاد شاعر ہیں۔ اس شعر میں زمانے کی دھتکارنے اور کم سنی سے ہی غموں نے مجھے جیسے آگھیرا ہے میرے لیے ایک پل سکون کا نہیں گزرا۔ اس پر محبوب کی بےرخی کا دکھ مجھے رات دن بے چین کیے رکھتا ہے۔ ان سب مشکلات و تکالیف کی وجہ سے دل جلتا ہے۔ دل غموں کے شعلوں میں بھنا جاتا ہے۔ یہ آگ جو دل کو اندر سے جلا رہی ہے یہ زمانے بھر کے ستم ہیں اب دل جل جل کر بھن چکا ہے اس لیے اب وہ کباب کی سی بو پھیلا رہا ہے۔ محبوب جس قدر مجھے سے بےرخی اور نارواں سلوک کرتا ہے میرا دل جل جل کر کباب کی طرح بو دینے لگ گیا ہے۔

میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

تشریح :

اس غزل کو میر تقی میر نے لکھا ہے۔ میر تقی میر متعدد شعراء کرام کے استاد شاعر ہیں۔ اس شعر میں وہ اپنے محبوب کے حسن اور عادات کے بارے کہتے ہیں کہ میرا محبوب بہت خوش مزاج ہے۔ اس کی مخمود آنکھیں میں شراب کے جیسا نشہ بھرا ہوا ہے۔ وہ کسی کو آنکھ بھر کر دیکھ لے اسے اپنا اسیر بنا لیتا ہے۔ وہ لاکھ بےرخی سے پیش آئے مگر وہ اپنی مخمور آنکھوں سے جب دیکھتا ہے تو شاعر کا دل لوٹ لیتا ہے۔ شاعر اپنے محبوب کی ہر ادا کا اسیر ہے وہ اپنے محبوب کی آدھی کھلی مخمور آنکھ کا بھی شیدائی ہے۔ جیسے ایک شرابی شراب کے نشےسے دھت ہو جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ میرے محبوب کی آنکھوں میں بھی وہی خماری ہے جو انسان کے ہوش اڑا دیتی ہے۔

سوال ۱ : مختصر جواب دیں۔

(الف) اس غزل میں ردیف کون سے الفاظ ہیں؟

جواب : اس غزل میں ردیف الفاظ “کی سی ہے” ہیں۔

(ب) اس غزل میں استعمال ہونے والے کوئی سے چار قافیوں کی نشاندہی کریں۔

جواب : اس غزل میں شراب، سراب، گلاب اور حباب قافیہ ہیں۔

(ج) دوسرے شعر میں ہونٹوں کو کس سے تشبیہ دی گئی ہے؟

جواب : دوسرے شعر میں ہونٹوں کو پنکھڑی سے تشبیہ دی گئی ہے۔

(د) میر نے “نیم باز آنکھوں کی مستی” کو کیا قرار دیا ہے؟

جواب : میر نے “نیم باز آنکھوں کی مستی” کو شراب کی مستی قرار دیا ہے۔

(ہ) شاعر “اضطراب” کی حالت میں کیا کرتا ہے؟

جواب : شاعر اضطراب کی حالت میں کوچہ یار بار بار جاتا ہے اور ناکام لوٹ کر آتا ہے۔

سوال ۲ : درج ذیل الفاظ کے معانی لکھیں اور جملوں میں استعمال کریں۔

ہستی زندگی ، وجود والدہ کی اچانک موت کے بعد اس کی ہستی یکسر بدل کر رہ گئی۔
حباب بلبلہ زندگی ناپائیدار حباب کے جیسی ہے۔
سراب دھوکا صحرا میں پیاسے کو سراب نظر آنا عام بات ہے۔
اوقات حیثیت کسی پر اوقات سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔
اضطراب بے چینی پرچہ غلط حل کرنے کے بعد نتیجہ آنے تک اضطراب رہتا ہی ہے۔
خانہ خراب تباہ و برباد زلزلہ سے سب کے کاروبار کاخانہ خراب ہو گیا تھا۔
نیم باز آدھی کھلی ہوئی رات گئے نیم باز مخمور آنکھوں سے ادائیں دکھا کر لوٹنے کی وارداتیں بڑھنے لگیں ہیں۔
مستی خمار کوتوال نے رات کو گشت شروع کر دیاڈاکوں کی مستی جارتی رہی۔

سوال ۳ : کالم (الف) میں دیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔

کالم (الف) کالم (ب)
ہستی حباب
نمائش سراب
پنکھڑی گلاب
آنکھیں نیم باز
حالت اضطراب
دل کباب
مستی شراب
آواز خانہ خراب

سوال ۴ : درج ذیل مرکبات کی کون سی قسم ہیں؟
چشم دل ، اس کے لب، آتش غم، اس کا در۔

جواب: ” چشم دل ، اس کے لب، آتش غم، اس کا در “ مرکب اضافی ہیں۔

سوال ۵ : اس غزل کے مطلع اور مقطع کی نشاندہی کریں۔

مطلع :

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے

مقطع :

میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

سوال ٦ : مذکر اور مؤنث الگ الگ کریں۔

مذکر حباب۔ سراب۔ لب۔ کباب۔
مؤنث ہستی۔ نمائش۔ بو۔ مستی۔ شراب۔

سوال ۷ :اعراب لگا کر تلفظ واضح کریں :

حَبابُ۔
آتِشِ غَم۔
عاَلم۔
اِضُطِرَابُ۔
نِیُم بَازٗ۔
چَشُمِ دِل۔
نمُائِش۔
سَرابُ۔

سوال ۸ : متن کے مطابق درست لفظ کی مدد سے مصرعے مکمل کریں۔

  • (الف) نازکی اس کے۔۔۔۔۔۔کی کیا کہیے (لب)
  • (ب) پنکھڑی اک ۔۔۔۔۔کی سی ہے (گلاب)
  • (ج) ہستی اپنی۔۔۔۔۔ کی سی ہے (حباب)
  • (د) باز باز اس کے۔۔۔۔۔۔پہ جاتا ہوں (در)