میر تقی میر | Meer Taqi Meer Biography In Urdu

0

میر محمد تقی نام اور میر تخلص تھا۔1722ء میں اکبر آباد (آگرہ) میں پیدا ہوئے۔والد کا نام محمد علی تھا جو علی متقی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی۔ دس سال کی عمر میں والد کا انتقال ہوگیا۔پھر بڑے بھائیوں کے سلوک سے تنگ آکر بارہ سال کی عمر میں گھر سے نکل پڑے اور کچھ دن ٹھوکریں کھا کر واپس آئے۔کچھ عرصے کے بعد معاشی بدحالی اور تنگدستی نے گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا اور دہلی چلے آئے جہاں سراج الدین خان آرزو اور میر جعفر سعادت علی خان نے سہارا دیا اور میر کی تربیت اور پرورش کی۔یہاں شعر گوئی میں وسعت ملی۔دہلی کے قیام میں ان کی شاعری کی پختگی اور عروج نے انہیں دور دور تک مشہور کیا۔دہلی کے اجڑ جانے پر آپ نواب آصف الدولہ کی دعوت پر 1782ء میں لکھنؤ چلے آئے اور یہاں ان کی بڑی قدرومنزلت ہوئی۔اگرچہ دربار سے زیادہ عرصہ تک تعلق نہ رہ سکا پھر بھی یہاں میر کی باقی زندگی آرام سے گزری۔آخر کار 1810 عیسوی میں یہیں ان کا انتقال ہوا۔

شاعرانہ عظمت

میر کو اردو کا بہترین غزل گو شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔میر کے بعد جو بھی بڑے بڑے شاعر گزرے ہیں انہوں نے میر کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔میر کی زندگی مصائب میں گزری، اس لئے ان کے کلام میں حزن و ملال، درد و غم کا شدت سے تذکرہ ہے۔تنگدستی،عشق کی ناکامی، اپنے رشتہ داروں کی سرد مہری کا احساس اور غم ان کی شاعری میں سے جھلکتا ہے۔میر کی غزلوں میں درد و الم کے ساتھ سوزوگداز اور روانی پائی جاتی ہے۔غزل کے لیے ان کی طبیعت اور انداز موزوں تھے اس لیے وہ غزل کے بادشاہ کہلاتے ہیں۔

میر نے ادب و انشاء کی تعلیم آرزو اور میر جعفر علی سے حاصل کی۔سعادت علی امروہی کی ترغیب سے ریختہ گوئی شروع کی۔میر اپنی عمدہ شاعری کی وجہ سے دہلی اور لکھنؤ میں مقبول ہو چکے تھے۔مختلف امرا و روسا نے ان کی ہمت افزائی کی۔میر نے اپنی زندگی شاعری کے لیے وقف کردی۔شاعری ان کی زندگی کا اہم جزو بن گئی۔محمد حسین آزاد نے انھیں اردو زبان کا قدیم جوہری لکھا ہے۔امیر صاحب کے 72 نشتر مشہور ہیں۔

میر کی شاعری کے چراغ کے سامنے دوسرے شعراء کی شمع شاعری کی لو مدھم تھی یہاں تک کہ سودا بھی اس سے بچ نہ سکے۔سودا خود کو دنیائے غزل کا بڑا شاعر سمجھتے تھے۔ان کے چاہنے والے ان کی تائید کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ میدان غزل میں میر نے سودا کو مات دے دی تھی۔میر کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ میر کی شاعری ایک بیکران سمندر ہے جو اپنے دامن میں اتھا گہرائی رکھتی ہے۔میر کی شاعری یاسیت اور قنوطیت کے باوجود غم کی تیز لے رکھتی ہے جو صرف ان کی ذات تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ کروڑوں کواپناہمنوا بناتی گئی۔ان کی شاعری کی غنائیت، سوزوگداز، نغمگی اور دلکشی و اسلوب نے میر کو اردو کا سب سے بڑا غزل گو بنادیا ہے۔قاری میر کے غم کو اپنا غم سمجھتا ہے یہی ان کی شاعری کا کمال ہے۔اردو غزل گویوں میں میر کو وہی شاعرانہ عظمت حاصل ہے جو حافظ کو فارسی غزل گویوں میں حاصل ہے۔قطعیت کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ میر “شہنشاہ غزل” ہیں “خداۓ سخن” ہیں اور اس میدان میں کوئی ان کا حریف نہیں۔

اردو شاعری کو دردواثر اور سوزوگداز سے مالا مال کرنے والے شاعر کا نام میر تقی میر ہے۔ان کے درد و غم کا سرچشمہ ان کی ذات اور زمانہ دونوں ہی تھے۔ان کی شاعری ایک دکھے ہوئے دل کی آواز اور جاگیردارانہ تمدن کی مجروح انسانیت کی کراہ تھی۔میر کی شاعری کو المیہ رنگ و آہنگ ان طوفانوں نے بخشا تھا جن سے وہ اپنی ذاتی زندگی اور اپنے ماحول دونوں میں گزرے تھے۔

تمام قدیم شعراء کی طرح میر کی شاعری کا بھی خاص موضوع عشق و محبت ہے۔محبت سے متعلق میر کے بیانات رسمی نہیں یہ محبت کی چوٹ کھائے ہوئے دل کے تجربات ہیں۔میر کے حالات زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کم عمری ہی میں کسی “پری تمثال”کی محبت میں گرفتار ہوئے تھے۔کسی نہ کسی شکل میں محبت کا آزار ان کی ذات کے ساتھ لگا رہا۔مرکز نگاہ بدلتے رہے، مجازی محبت کی سرحدوں کو پار کرکے حقیقی محبت کے حدود میں بھی قدم رکھا۔چونکہ ان کا عشق رسمی نہیں تھا اس لیے ان کے اشعار میں خلوص، صداقت اور وارفتگی کا احساس ہوتا ہے۔

عشق کے ساتھ ناکامیاں اور محرومیاں ہمیشہ سے وابستہ رہی ہیں۔میر جو کہ غم پسند فطرت اور حساس دل کے مالک تھے ان پر عشق نے اور بھی قہر توڑا۔اسی آفتاب غم سے پھوٹنے والی کرنوں کا المیہ رقص ہمیں ان کی شاعری میں ملتا ہے۔ان کے اشعار کی داخلیت جسے فراق نے “بھتیری چوٹ” کا نام دیا ہے ہمارے دل کو تڑپاتی ہے اور نشتر کا کام کرتی ہے۔مندرجہ ذیل اشعار میں پائی جانے والی غم کی زیریں لہریں بھلا کس دل کو متاثر نہیں کریں گی۔

جب نام تیرا لیجیے تب آنکھ بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

میر کی شاعری میں مجازی محبت کے ساتھ حقیقی محبت کے جلوے بھی نظر آتے ہیں۔ان کی طبیعت میں صبر و رضا، دردمندی، خودداری، غموں سے نباہ کرنے کی صلاحیت اور قناعت اسی تصوف کی دین ہے،چنانچہ دنیا کی بے ثباتی، انسان کی عظمت، بے خودی اور وحدت الوجود جیسے تصوف کے موضوعات کا بیان ہمیں میر کی شاعری میں کثرت سے ملتا ہے۔

میر اپنے خیالات کو بہترین انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور انہوں نے جو اسلوب اپنایا ہے وہ موضوع و مواد کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے۔میر کی شاعری میں جو چیز ہمیں سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ ان کے جذبات کی صداقت اور سادگی ہے۔تکلف و تصنع سے انہیں نفرت ہے، جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں بہت زیادہ آمد اور برجستگی پیدا ہوگئی ہے۔میر کی سادگی خود ایک حسن ہے جو تزئین و آرائش سے بے نیاز ہے۔

میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے

میر کے اشعار میں نرمی، آہستہ روی اور گھلاوٹ کے ساتھ بلا کی غنائیت، موسیقیت اور ترنم ہے۔اس میں نغمے کی ایک لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔میر یہ نغمگی مترنم الفاظ، چھوٹی بحروں اور نغمگی سے مناسبت رکھنے والی ردیف و قافیہ کے انتخاب سے پیدا کرتے ہیں کہیں کہیں تکرار الفاظ سے بھی کام لیتے ہیں۔

میر نادر تشبیہات و استعارات کا استعمال کرتے ہیں۔ان تشبیہات کی مدد سے میر ایسے پیکر تراشتے ہیں جن میں زندگی کی حرارت ہوتی ہے۔یہ تشبیہیں سادہ ہوتے ہوئے بھی بڑی اچھوتی ہوتی ہیں۔

شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

میر کے یہاں رمزیت و اشاریت خاصے کی چیز ہے۔میر کے اشعار میں ‘چراغ مفلس’ ‘سایہ دیوار’ ‘گردبار’ ‘غبار’ ‘آندھی’ اور ‘بگولے’ جیسے الفاظ صرف شاعرانہ اظہار نہیں،بلکہ ان کے پس منظر میں مطالعہ و مشاہدہ کی ایک دنیا موجود ہے۔

اردو کے بڑے بڑے شعراء جیسے مرزا غالب، ناسخ، ذوق، مومن،حسرت نے میر کی استادی کا اعتراف کیا ہے۔واسوخت میر ہی کی ایجاد ہے۔میر کے کلام کا سرمایہ بہت زیادہ ہے جو کلیات میر کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔میر کی تصانیف میں چھ اردو دیوان، بہت سی مثنویاں، “ذکرمیر” اور “نکات الشعراء” اردو کی یادگار ہیں۔

مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ میر نے اردو شاعری پر اپنی انفرادیت کا گہرا نقش چھوڑا ہے۔یہ انفرادیت موضوع کے ساتھ ساتھ اسلوب اور زبان وبیان میں بھی ہے۔میر کو ‘خدائے سخن‘ ‘ناخدائے سخن’ ‘سرتاج شعراء اردو’ اور ‘شاعر بے دماغ’ کہا جاتا ہے۔