مرزا غالب

0

غالب کی زندگی

اسد اللہ خان نام اور غالب تخلص تھا- شروع میں تخلص اسد رکھتے تھے مگر جب لوگوں میں ان کی شاعری کی پذیرائی نہ ہوئی تو انہوں نے اپنا تخلص بدل کا غالب رکھ لیا۔ آپ کے والد عبداللہ بیگ مغلیہ فوج میں ملازم تھے- جب وہ الور کی لڑائی میں مارے گئے تو اس وقت غالب کی عمر صرف ۵ سال تھی- اس کے بعد چچا نے کفالت کی۔ آٹھ برس کی عمر میں چچا کا بھی انتقال ہو گیا اس کے بعد سرکار سے جاگیر کے ‏عوض میں پنشن مقرر ہوگئی- آپ نے دہلی میں سکونت اختیار کر لی- آپ انتقال کے بعد نظام الدین اولیاء کے پاس دفن کیے گئے۔

غالب کی شاعرانہ عظمت

غالب کو اپنی زندگی میں زیادہ شہرت نہ ملی کیونکہ وہ عوامی شاعر نہ تھے۔ ان کا ابتدائی کلام فارسی آمیز اور بہت رفیق ہے جو ان کی مشکل پسندی کا آئینہ دار ہے۔ پھر آپ نے صاف اور سہل زبان استعمال کی لیکن فارسیت کا غلبہ پھر بھی باقی رہا۔ آپ کی شاعری کا تیسرا دور جو کہ آسان اردو اور بول چال کا ہے، وہ عوام میں خوب مقبول ہوا۔ اس کے بعد لوگوں نے غالب کی عظمت کو جانا اور پرکھا۔

ایک غزل گو شاعرکی حیثیت سے غالب کی شاعری کی خوبیاں مندرجہ ذیل الفاظ میں پیش کی جاسکتی ہیں۔
حالی نے غالب کے کلام کی چار خصوصیات بیان کی ہیں۔

  • (الف)مضامین میں جدت
  • (ب ) کنایوں کا دلکش استعمال
  • (جِ) شوخی و ظرافت
  • ( د) ایسے اشعار کی بہت تعداد ہے جس کے ایک سے زائد معنی پائے جاتے ہیں۔

غالب کی شاعری سے اردو میں فکر و فلسفہ کی باقاعدہ ابتدا ہوتی ہے۔ وہ اردو کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے دلی واردات اور ذہنی کیفیات کو محض بیان کر دینے پر قناعت نہیں کی بلکہ ان پر فلسفیانہ انداز میں غور کیا اور اپنے کلام میں ان کو پیش کیا ہے۔ اگر چہ وہ فلسفی نہ تھے پھر بھی انہوں نے زندگی کے مختلف رموز کو آشکار کیا اور نئے انداز سے ان پر لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دی۔

غالب سے پہلے اردو خالص جذبات وجدان اور اندرونی کیفیات کی شاعری تھی۔ لکھنؤ میں خارجییت اور دہلی میں داخلیت کا رنگ غالب تھا۔ لیکن غالب نے غزل کو دونوں دائروں سے نکال کر معنوی رنگ عطا کیا۔ انہوں نے اردو غزل کی بنیاد تاریخی احساسات اور انسانی نفسیات پر رکھی۔ اس طرح غالب کے اشعار نے احساس اور فکر دونوں کو یک وقت چھوڑا۔

غالب کا فلسفہ عشق میر سے بہت مختلف ہے۔ وہ حسن کو عظمت نہیں دیتے، محبوب کی خاک پا چھونے کو بھی وہ عشق کی توہین خیال کرتے ہیں۔ جدت طرازی ان کے کلام کے جان ہے۔ انہوں نے زندگی کے ہر معاملے میں ایک نئی روشنی اختیار کی ہے۔ ان کے اشعار میں صرف مضامین کی ہی جدت نہیں ہے بلکہ اسلوب کی بھی جدت ہے۔ ان کے ہاں اگر مضمون فرسودہ ہے تو اسلوب نیا ہے اور اگر اسلوب نیا ہے تو موضوع فرسودہ ہے۔

غالب نے اپنی شاعری میں فلسفہ غم کو جس انداز سے پیش کیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ وہ اپنی مصیبتوں کا بیان کرتے وقت نہ تو میر کی طرح روتے ہیں اور نہ دوسروں کو رلاتے ہیں۔ اس کے برعکس ان کے کلام میں لذت غم ہے۔ وہ غم کو زندگی سے مربوط مانتے ہیں، اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان پر بہت زیادہ مصیبت کبھی نہیں آئی۔

شوخی و ظرافت بھی ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے جو کہ ان کی فطرت کا جزو ہے۔ وہ بڑی سے بڑی پریشانی کو بھی ہنس کر کاٹ دینے کے عادی ہیں۔ ظرافت میں وہ زیادہ تر خود پر ہی ہنستے ہیں؀

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

جدت پسندی کے ساتھ ساتھ ان کے یہاں آفرینی بھی غضب کی ہے- وہ نہ صرف نئے الفاظ اور ان کی منفرد ترکیب استعمال کرتے ہیں بلکہ تشبیہات و استعارات میں بھی ندرت ہوتی ہے- اور کبھی کبھی تو نیا پن اتنا غالب ہوجاتا ہے کہ کلام میں مصمّہ صورت پیدا ہو جاتی ہے اور لوگوں کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ غالب اپنی شاعری کو یا تو خود سمجھے یا خدا سمجھے۔

وہ حسن و عشق کے صرف انہی مضامین کو ہاتھ لگاتے ہیں جن سے انسانی جذبات میں لطافت اور پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔ ان کے یہاں محبت ناکام نہیں ہے بلکہ انہی حسن سے فائدہ اٹھانے کا اپنی زندگی میں پورا پورا موقع ملا تھا۔

وہ آئے گھر پے ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

مرزا کی زیادہ تر شاعری ان کی دائمی زندگی کا آئینہ دار ہے۔ وہ نہ تو پکے صوفی ہیں اور نہ ہی پکے مسلمان۔ نہ ان کے ہاں دینی خرروں کی زیادہ اہمیت ہے اور نہ سماجی قوائد کی۔ بلکہ وہ زندگی کو آزادانہ گزارنا چاہتے ہیں- وہ یک وقت کافر بھی ہیں اور مسلمان بھی اور جب غم کی کیفیت سے گزرتے ہیں تو ان کا ایمان زیادہ مضحکہ خیز ہو جاتا ہے؀

اک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی

غالب کے بعد کے کلام میں سادگی سلاست اور روانی بھی خوب ہے۔ وہ مومن سے کم اور میر سے زیادہ ہے۔ ان کے سادہ الفاظ کے پیچھے گہرے معنی پوشیدہ ہیں جو لوگوں کو دعوت فکر و عمل دیتے ہیں۔

تنگ مزاجی اور خود پسندی غالب کے مجاز میں شامل تھی جس کا اظہار ان کی شاعری میں جہاں تحاں ہوتا ہے۔

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں غالب کا ہے انداز بیاں اور

غالب نے اپنی شاعری کو پیش کرتے وقت کبھی بھی بازار کی مانگ کو پیش نظر نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ اپنے انداز سے سوچا اور اپنی انفرادیت کو قائم رکھا۔ عورت اور شراب غالب کی نشط زندگی کو بڑھاتے ہیں مگر وہ غالب کی زندگی نہیں ہے کہ ان کے بغیر جینا مشکل ہو جائے۔

اور باز سے لے آئیں گے اگر ٹوٹ گیا
جام جم سے میرا جام سفال اچھا ہے

غالب کے زمانے میں کوئی بھی شخص اپنی روایات اپنی تہذیب اپنی رنگین مگر سطحی دنیا سے بیزار یا باغی نہیں ہے- غالب بھی اپنی تہذیب اور روایت سے باغی نہ تھے مگر وہ ان سے مطمئن بھی نہ تھے- بلکہ وہ اس میں نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی چاہتے تھے- غالب نہ تو قنوطی ہیں اور نہ ہی رجائی۔ غالب کا انداز بیان ایک زندہ دل رنگین اور آزاد فطرت شاعر ہونے کا پتہ دیتا ہے۔

غالب کے عشق میں سمرقند بخارا قدیم ایران اور ہندوستان سب گل مل گئے ہیں- غالب کے ہاں ایک شخصیت ملتی ہے جو مذہبی اور اخلاقی سہاروں کی بجائے انسانی توجہ ڈھونڈتی ہے-
غالب کا کلام ہمیں ماضی پرستی سے روکتا ہے اور زندگی کی تکلیف پر کڑھنے کی بجائے ایک حوصلہ عطاء کرتا ہے-

جب ہم غالب کے اشعار کا مطالعہ غور کرتے ہیں اس میں ہمیں کئی معنی تہہ در تہہ نظر آتے ہیں اور نئے نئے معنی آشکار ہو جاتے ہیں- اس طرح غالب نے لفاظی کو ترک کیا اور معنویت کو گلے لگایا-

غالب نے نئے زمانے اور نئے نظام کی اس وقت تائید کی جب لوگ اس پر اعتراض کرنا ٹھیک سمجھتے تھے- غالب پیکر انسانیت تھے، کنبہ پروری انکے اندر شروع سے تھی اور ان کے اندر خاندانی شرافت کو باقی رکھنے کا جذبہ جنون کی حد تک تھا۔ مختصر میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ غالب کی شاعری ہمیں زندگی میں آسودگی، اطمینان و سکون ، قنوطیت کی طرف نہیں لے جاتی بلکہ ایک لطیف ذہنی خلش اور آزاد انداز نظر کی طرف مائل کرتی ہے۔

تحریر ارویٰ شاکر