مومن خاں مومن

0

مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ ۱۸۰۰ میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے جد امجد کا اصل وطن کشمیر تھا۔ شاہ عالم کے عہد میں دہلی آئے اور یہیں سکونت پذیر ہو گئے۔ مومن خان کی تعلیم گھر پر ہوئی عربی تعلیم شاہ عبدالقادر سے حاصل کی طب علم نجوم اور علم جفر کا فن والد اور چچا سے سیکھا۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا ابتداءمیں شاہ نصیر سے اصلاح لیتے رہے مگر بعد میں خود ہی مشق سخن کیا۔

مومن کی شادی خواجہ میر درد کے نواسی سے ہوئی تھی جن کا گھرانہ بھی تصوف کی طرف مائل تھا مگر خود مومن غیر مقلد اور بڑے راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ مگر دوسری طرف ان کا مزاج بڑا عاشقانہ اور رنگین تھا اس طرح ان کے دماغ میں ہمیشہ اسلام اور عشق کے بیچ معرکہ آرائی ہوتی رہی۔ ویسے مومن بڑے با اخلاق اور خوددار انسان تھے اور کبھی کسی کی تعریف یا مدح میں محض انعام کی خاطر قصیدہ نہیں کہا۔ دہلی پر اتنی آفتیں نازل ہونے کے باوجود اپنا وطن کبھی نہیں چھوڑا اور ۱۸۵۱ میں دہلی میں انتقال فرمایا۔

ان کی تصانیف میں دیوان اردو و کلیات فارسی کو زیادہ شہرت ملی۔ یوں تو ان کا شمار ممتاز غزل گو شعرا میں ہوتا ہے بحیثیت غزل گو ان کے کلام کی درج ذیل خصوصیات ہیں۔

۱- ان کا کلام نازک خیالی اور بلند پروازی کا بہترین نمونہ ہے مگر ان کے کلام میں غالب جیسی ہمہ گیری اور معنی کی وسعت نہیں ہے۔ گرچہ نازک خیالی میں ان کا مرتبہ غالب سے بلند ہے۔

۲- واردات حسن و عشق کا جتنا حسین ذکر ہمیں مومن کے ہاں ملتا ہے وہ میر کے بعد مومن کا ہی حصہ ہے۔ مثلاً رقابت کے مضامین اردو شاعری میں کانٹوں کی سی حیثیت رکھتے ہیں مگر مومن کا اجاز یہ ہے کہ انہوں نے اردو شاعری میں ان کا نٹو میں جہاں تک ان کا ظاہری شکل کا تعلق ہے پھولوں کی سی رنگینی اور نرمی پیدا کر دی ہے۔

۳- مومن اردو میں مکر شاعری کے موجودہ بھی ہیں اور خاتم بھی ہیں۔ مکر شاعری ان کا خاص انداز بیان ہے وہ کہیں کہیں محبوب سے وہ بات کر جاتے ہیں جس میں با ظاہر محبوب کا فائدہ ہوتا ہے مگر حقیقت میں خود ان کا فائدہ ہوتا ہے۔

غیرون پر نہ کھل جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف دیدہ غماز دیکھنا

۴- معاملہ بندی بھی ان کے کلام کا نمایاں وصف ہے۔ مومن کے ہاں جتنی معاملہ بندی ہے وہ اردو کے کسی بھی شاعر کے یہاں نہیں ہے۔ ان کی ہر غزل میں معاملہ بندی کے دو چار شعر ضرور ملیں گے۔ وہ اپنے دل کی بات محبوب سے کہہ دینے میں بالکل نہیں شرماتے۔

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نا یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

۵- تغزل بھی مومن کے کلام کی ایک نمایاں خصوصیت ہے اس تغزل میں ایک نیا رنگ اور ایک نیا حسن ہے۔

۶ – مومن کا کلام الجھاو اور ایہام سے پاک ہے نیزان کے ہاں ندرت خیالی کے ساتھ ساتھ اسلوب کی جدت بھی پائی جاتی ہے۔

۷- مومن کی شاعری میں شوخی اور طنز بھی پایا جاتا ہے – محبوب سے چھیڑچھاڑ رقييب سے چٹکی لینا واعظ اور ناصح پر فقرے کسنا ان کی شاعری اور زندگی کا حصہ ہے اور یہ شوخی کبھی کبھی طنز کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

۸- مومن کے ہاں عشق کا انداز بازاری نہیں ہے گرچہ ان کا محبوب بازاری ہے مگر اس سے بڑے باوقار انداز میں عشق فرماتے ہیں- یہی سبب ہے کہ عاشق اور معشوق کے درمیان واردات عشق کا اظہارِ مومن کہ یہاں بڑے سلیقے سے ہوا ہے۔

۹- مومن کی شاعری کی ایک اور خوبی حسن مقطع ہے مومن اپنے تخلص کا استعمال اس مہارت سے کیا ہے کہ اس کا ایک الگ اور باقاعدہ مفہوم نکل کر سامنے آتا ہے اور شعر کی معنویت بڑھ جاتی ہے-

دل کسی بت کو دیا ہے حضرت مومن کہیں
وعظ میں کیوں برہمن کو دیکھ کر روکتے ہیں آپ

۱۰- محبوب کی تصویر کشی میں مومن نے اتحاد سے کام لیا ہے ان کا محبوب مزکر نہیں بلکہ مونث ہے جس کا وہ کھل کر اظہار بھی کر کرتے ہیں- ان کے محبوب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ پردہ نشین ہوتا ہے اور بے حجابی اسے پسند نہیں-

۱۱- مومن اپنے محبوب کے سامنے کبھی عاجزی سے نہیں پیش آتے بلکہ وہ ہر جگہ پرابری کا معاملہ رکھتے ہیں –

۱۲- مومن کے یہاں رعایت لفظی کا استعمال بھی بہت پایا جاتا ہے۔

۱۳- مومن الفاظ کے بھی جادوگر ہیں اور کبھی کبھی وہ الفاظ کے الٹ پھیر سے معمولی بات کو بھی بڑی دلکش اور انوکھے انداز میں پیش کرتے ہیں۔

۱۶- مومن نے بلند پروازی کے ساتھ ساتھ صحیح جذبات نگاری کے جوہر دکھائے ہیں تشبیہات و استعارات بھی وہ نئے لاتے ہیں اور ان کا استعمال بھی وہ عام ڈگر سے ہٹ کر کرتے ہیں۔

۱۵- مومن کے ہاں اکثر مقامات میں مشکل پسندی آگئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت بڑے عالم تھے ان کے اندر تصوف کا رنگ تھا اور طبیعت مذہب کی طرف مائل تھی۔

۱۶- ان کی شاعری کی ایک خوبی اعلانیہ عشق مجازی کا اظہار ہے جیسے عشق حقیقی پر پر چسپا نہیں کیا جا سکتا – وہ اپنے محبوب کی اداؤں کا بیان بھی بڑے دلفریب انداز میں کرتے ہیں- ان کی شاعری کی عظمت کے خود غالب بھی قائل تھے اور ان کے ایک شعر کے بدلے اپنا پورا دیوان دینے کے لیے آمادہ تھے- وہ شہر یہ ہے؀

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

۱۷- مومن کے ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ غزل میں مضامین تغزل کے دائرے سے باہر نکلنا گوارا نہیں کرتے مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ غزل کی شاعری کو عشق و عاشقی کے دائرے کے اندر رکھنا چاہتے ہیں۔

۱۸- ر قیب اور نا صح کا تذکرہ ان کے یہاں جس تکرار اور انفرادیت کے ساتھ آتا ہے اس سے صاف صاف انکی روداد محبت کا پتہ چلتا ہے –

۱۹- مومن نے اگرچہ اسماعیل شہید اور سید احمد بریلوی کی تحریک میں عملاً حصہ نہیں لیا تاہم وہ جہاد اور دعوت کو بے حد پسند کرتے ھیں اور اس کا اظہار انہوں نے اپنے کلام میں جابجا کیا ہے۔

۲۱- مومن کے کلام میں تصوف کی پیچیدگیاں بھی نہیں ملتی کیوں کہ وہ کتاب وسنت پر سچائی سے عمل کرنے کے قائل تھے۔

۲۲- مومن اگرچہ دہلی کے رہنے والے تھے اور کلام میں زیادہ حصہ دہلی شاعری کی اتباع کا ہے – مگر ان کی شاعری کے چند پہلو انہیں لکھنو کی شاعری سے قریب کر دیتے ہیں مثلاً خارجیت کا غلبہ مشکل زمین مسلسل غزل کہنا لفظوں کی ہیر پھیر وغیرہ سب لکھنؤ کی ہی دین ہے۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مومن کے یہاں خالص اسلام کا رنگ بھی ہے اور خالص غزل کا انداز بھی اور دونوں کی کشمکش ان کی پوری شاعری میں جلوہ گر ہے – مومن نے ہر جگہ اتحاد سے کام لیا ہے اور کامیاب ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں بعض مقامات پر تاثیر کم ہے مگر اسلوب کے ندرت کی وجہ سے ان میں مزہ آتا ہے۔

تحریر ارویٰ شاکر