پرندے کی فریاد، تشریح، سوالات و جوابات

0

تعارفِ شاعر

علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء میں سیالکوٹ(پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ان کا اصلی نام محمد اقبال اور تخلص اقبال تھا۔ انہیں اپنے کارناموں کی وجہ سے “سر” کا خطاب بھی ملا اور وہ شاعرِ مشرق سے بھی مشہور ہیں۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری لکھی۔وہ شاعری کے ساتھ ساتھ فلسفے سے بھی وابستہ رہے۔ ان کی مشہور کتابیں بانگ درا ،ضربِ کلیم ،شکوہ جوابِ شکوہ وغیرہ ہیں۔ علامہ اقبال کی وفات21 اپریل 1938 کو لاہور میں ہوئی۔

تعارف نظم

یہ نظم ہماری درسی کتاب بہارستان اردو سے ماخوذ ہے۔ یہ نظم ڈاکٹر سر محمد اقبال نے لکھی ہے۔شاعر نے اس نظم میں پرندے کی فریاد کو اپنا موضوع بنایا ہے جو دراصل ایک تشبیہ ہے جو کہ علامہ کی شاعری کی پہچان ہے۔ یہ تشبیہ ایک انسان کی بھی ہو سکتی ہے جو دنیا کی قید میں پڑا ہوا ہے اور اس کی اصل منزل جنت ہے جہاں سے وہ کبھی نکالا گیا تھا۔ نظم میں جو پرندے کو بہاروں کی یاد آتی ہے وہ دراصل جنت کی وہ دلکش وادیاں اور بہاریں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پرندہ یہاں اس قیدی کی طرح ہے جس کو کسی جرم میں قید کیا گیا ہو اور وہ گزرے زمانے کو یاد کرتا ہو اور آزادی کے انتظار میں ہو۔

نظم کی تشریح

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا

شاعر نے اس نظم میں پرندے کی فریاد کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ پرندہ جو پنجرے میں بند ہے کہتا ہے کہ مجھے گزرا ہوا زمانہ یاد آتا ہے کہ جب سارے پرندے مل کر بہاروں کا مزہ لیتے تھے اور گیت گاتے تھے۔

آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا

پرندہ کہتا ہے کہ اب وہ آزادیاں نہیں رہیں جو مجھے اپنے گھونسلے میں حاصل تھیں۔ میں اپنے گھونسلے میں اپنی مرضی سے آتا جاتا تھا کسی کی روک ٹوک نہیں تھی۔

لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا

پرندہ کہتا ہے کہ میرے دل پر گہری چوٹ لگتی ہے جب مجھے وہ صبح کا وقت یاد آتا ہے کہ جب شبنم ختم ہونے پر کلیاں مسکراتی تھی( یعنی جب سورج نکلتا ہے اس وقت شبنم ختم ہونے کو ہوتی ہے اور کلیاں کھلنے لگتی ہیں)

وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانہ

پرندہ کہتا ہے کہ مجھے وہ کامنی سی، پیاری پیاری سی صورت یاد آتی ہے جس کی وجہ سے میرا گھر آباد تھا۔(یہاں پرندہ اپنے ساتھی کی صورت کو بیان کر رہا ہے)

آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں

پرندہ کہتا ہے کہ اُس خوبصورت ساتھی کی آوازیں میرے پنجرے تک نہیں پہنچتی۔ کاش! میری رہائی میرے بس میں ہوتی تو میں ہی اس تک پہنچتا۔

کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہے وطن میں میں قید میں پڑا ہوں

پرندہ اپنی بدنصیبی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں اپنے گھر کو ترس رہا ہوں (یعنی گھر نہیں جا سکتا) اور میرے ساری ساتھی وطن میں ہیں اور میں خود قید میں میں پڑا ہوں۔

آئی بہار کلیاں پھولوں کو ہنس رہی ہیں
میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں

پرندہ کہتا ہے نہ جانے کتنے موسم گزرے بہار بھی آئی پھول بھی کھلے لیکن میں ابھی بھی اس اندھیرے گھر میں اپنی قسمت کو رو رہا ہوں ہو۔

اس قید کا الہی دکھڑا کسے سناؤں
ڈر ہے یہیں قفسں میں میں غم سے مر نہ جاؤں

پرندہ کہتا ہے کہ الہی اب میں بھلا اپنے دکھ اس قید میں کس کو سناؤں مجھے تو ڈر ہے کہ میں اسی قید میں مر نہ جاؤں۔

جب سے چمن چھٹا ہے یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے غم دل کو کھا رہا ہے

پرندہ کہتا ہے کہ جب سے میرا وطن مجھ سے چھوٹا ہے میں بہت ہی زیادہ رنج و غم اور تکلیف میں مبتلا ہوں اور یہ غم میرے دل کو کھائے جا رہا ہے۔

گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھتے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے

شاعر کہتا ہے کہ سننے والا اسے گانا نہ سمجھے یہ کوئی گانا نہیں ہے بلکہ دکھتے دلوں کی فریاد ہیں۔

آزاد کر دے مجھ کو او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے تے

نظم کے آخری شعر میں پرندہ قید کرنے والے سے یہ التجا کرتا ہے کہ میں ایک بے زبان اور کمزور ہوں مجھے رہا کر دے اور رہائی کے بدلے دعائیں لے۔

سوالات

سوال: پرندے کو گزرے ہوئے زمانے کی کون کون سی باتیں یاد آتی ہیں ؟

ج: پرندے کو اپنا بیتا ہوا وقت یاد آتا ہے جب وہ آزاد تھا اس کو باغوں میں اپنا گھونسلا یاد آتا ہے، اسے بہار کے موسم میں کلیوں کا کھلنا یاد آتا ہے، پرندے کو اپنا ساتھی یاد آتا ہے جس کی بدولت اس کا گھونسلا روشن تھا۔

سوال: ‌پرندہ قفس میں کس کی آواز سننے کی آرزو کرتا ہے؟

ج: پرندہ قفس میں اپنے بچھڑے ہوئے ساتھی کی آواز سننے کی آرزو کرتا ہے۔

سوال: پرندہ خود کو بدنصیب کیوں سمجھتا ہے؟

ج: پرندہ خود کو بدنصیب اس لیے سمجھتا ہے کیونکہ وہ پنجرے میں بند ہے اور اس کے ساتھی دور اس کے وطن میں۔

سوال: پرندے کو اپنے چمن کی کون سی چیزیں یاد آرہی ہیں؟

ج: پرندے کو اپنے چمن کی بہاریں، کلیاں اور پھول یاد آرہے ہیں۔

سوال: قسمت کو رونے سے کیا مراد ہے؟

ج: قسمت کو رونے سے مراد اپنی بدقسمتی کی شکایت اور برے وقت کا شکوہ کرنا ہے۔

2: دیے گئے مصروں کو نثر میں لکھیے۔

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ مجھے گزرا ہوا زمانہ یاد آتا ہے .
لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے آج جس دم میرے دل پر چوٹ لگتی ہے جس وقت مجھے یاد آتا ہے
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں کاش کہ میری رہائی میرے بس میں ہوتی
ڈر ہے یہیں قفسں میں میں غم سے مر نہ جاؤں مجھے ڈر ہے کہ میں یہیں اسی قید میں مر نہ جاؤں