اکبر الہٰ آبادی کی حالات زندگی و کارنامے

0

👈🏿 نام اکبر حسین تھا اور تخلص اکبر تھا۔
👈🏿 اکبر 16 نومبر 1846ء میں بمقام بارہ ضلع الہ آباد میں پیدا ہوے۔
👈🏿 اکبر کا انتقال 9 ستمبر 1921ء میں 75 سال کی عمر میں ہوا۔
👈🏿 اکبر کے والد کا نام تفضل حسین تھا۔

👈🏿 اکبر کی دو شادیاں ہوئی تھی۔
👈🏿 اکبر نے 20 سال کی عمر میں مختاری کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا تھا۔
👈🏿 اکبر نے 11 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔
👈🏿 اکبر نے اپنی شاعری کی ابتدا غزل سے کی تھی۔

👈🏿 اکبر کے شاعری کے استاد غلام حسین وحید الہ آبادی ہیں۔
👈🏿 اپنی شاعری میں اکبر شیخ، بدھو، جمن، اونٹ، ٹٹو، گاۓ، ریل گاڑی جیسے لفظ بھی ظرافت کے لیے استعمال کرتے تھے۔
👈🏿 اکبر کو انگریزی لفظ استعمال کرنے کا بہت شوق تھا۔
👈🏿 اکبر مزاحیہ شاعر تھے۔
👈🏿 اکبر کہتے تھے کہ “شاہد معنی نے اوڑھا ہے ظرافت کا لحاف”

👈🏿 اکبر نے اپنے کلام میں مغربی طرزِ حیات کو طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا ہے۔
👈🏿 اکبر کی جوڈیشری خدمات کے عوض 1898ء میں خان بہادر کا خطاب ملا تھا۔
👈🏿 اکبر الہٰ آبادی سر سید تحریک (علی گڑھ) کے مخالف تھے۔
👈🏿 سر سید کے موت پر اکبر نے کہا تھا “ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا”۔
👈🏿 مہارجہ سر کشن بہادر سے اکبر کے گہرے تعلقات تھے۔

👈🏿 خواجہ حسن نظامی سے اکبر کے گہرے تعلقات تھے۔
👈🏿 داغ اور ہیرا اکبر کا تنقیدی مضمون ہے۔
👈🏿 نظم گاندھی نامہ میں تین سو اکہتر (371) اشعار ہیں۔
👈🏿 اکبر کی کلیات چار حصوں میں ہیں۔

اکبر کے کارنامے

اکبر کی مشہور نظمیں:

*▪️1 : تعلیم نسواں
*▪️2 : نظم قومی
*▪️3 : برق کلیسا 1907ء
*▪️4 : جلوۂ دربار دہلی
*▪️5 : ایک بوڑھا نحیف و خستہ زار
*▪️6 : گرمی بحث میں
*▪️7 : انور نے یہ اکبر سے کہا
*▪️8 : دور کوہِ لب ساحل سے
*▪️9 : جو گزری اک موج
*▪️10 : درخت چڑ پہ ہے
*▪️11 : قائم تو استوار بھی ہے
*▪️12 : دریا کی رونی
*▪️13 : دو تیتریاں ہوا میں اڑتی دیکھیں
*▪️14 : چاہا جو میں نے ان سے طریق عمل پہ وعظ
*▪️15 : پانی کا بہاؤ
*▪️16 : فرضی لطیفہ
*▪️17 : ایک مس سمیں بدن
*▪️18 : گاندھی نامہ
*▪️19 : کرزن سبھا
*▪️20 : آب لوڈور
*▪️21 : مستقبل
*▪️22 : مدرسہ علی گڑھ
*▪️23 : نئی اور پرانی روشنی کی مکالمت
*▪️24 : جنگ ٹرکی وائلی کے متعلق رائیں
*▪️25 : دعاۓ کلو
*▪️26 : ایک خط (عشرت حسین کے نام)
*▪️27 : ایک خط بنام منشی نثار حسین
*▪️28 : وفات سر سید مرحوم پر
*▪️29 : (دعوت نامہ بنام علامہ شبلی نعمانی)

اکبر کے خطوط کے مجموعے:

▪️1 : *مکتوبات اکبر:* اکبر کے خطوط کا پہلا مجموعہ ہے۔
▪️2 : *خطوط مشاہیر:* اس میں شبلی، اکبر اور محمد علی جوہر کے خطوط ہیں۔
▪️3 : *رقعات اکبر:*

اکبر کے منتخب اشعار

حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا

پیٹ چلتا ہے آنکھ آئی ہے
شاہ ایڑورڈ کی دہائی ہے

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگی کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا

تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتون خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں

قومی ترقیوں کی زمانے میں دھوم ہے
مردانے سے زیادہ زنانے میں دھوم ہے

اکبر کے متعلق مختلف آرا و خیالات

👈🏿 اکبر کی نظم “جلوۂ دربار دہلی” کو حامد کاشمیری نے ایک “انفرادی رنگ” کی نظم کہا ہے۔
👈🏿 اکبر روایتی ہوتے ہوۓ بھی باغی اور باغی ہوتے ہوۓ اصلاحی ہیں۔ (رشید احمد صدیقی)
👈🏿 اکبر کی نظر قوم کی میراث پر بھی تھی اور قوم کی تقدیر پر بھی۔ (رشید احمد صدیقی)
👈🏿 حالی ماضی کے، اکبر حال کے اور اقبال مستقبل کے شاعر قرار دے جا سکتے ہیں۔ (رشید احمد صدیقی)
👈🏿 اردو ادب میں طنزو ظرافت کا سلیقہ و صحیفہ غالب اور اکبر کا دیا ہوا ہے۔ (رشید احمد صدیقی)
👈🏿 وہ(اکبر) شوہر پرست بیوی کو پبلک پسند لیڈی پر ترجیح دیتے ہیں۔ (رشید احمد صدیقی)
👈🏿 جو فقرے ان(اکبر) کی زبان سے نکلتے ہیں انشاپردازی کے جواہرریزے ہوتے ہیں۔ (مہدی افادی)
👈🏿 اکبر مشتاق غزل گو اور روایتی غزل گو صوفی تھے۔ (آل احمد سرور)
👈🏿 یگانہ یاس چنگیزی نے اکبر کی شاعری کو غالب سے برتر قرار دیا ہے۔
👈🏿 اقبال نے اکبر کو اپنا استادِ معنوی کہا ہے۔

تحریر طیب معزیز خان محمودی