نظم ایک آرزو کی تشریح

0

شعر 1 :-

دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

معانی:👈

  • اکتا جانا : تنگ آنا، بیزار ہونا۔
  • انجمن : بزم، باہم مل کر بیٹھنے کی جگہ۔
  • دل بجھ جانا : کوئی خواہش نہ ہونا۔

تشریح:- اس نظم میں اقبال اپنی دلی خواہش کا کمال چابکدستی سے اظہار کرتے ہیں چنانچہ نظم کا آغاز کرتے ہوئے علامہ اقبال رب ذوالجلال کو مخاطب کر کے اس طرح سے گویا ہوتے ہیں کہ اب دنیا کی محفلوں اور ان کے جھمیلوں سے میری طبیعت اکتا گئی ہے۔ اس لیے کہ جب حوادث زمانہ سے دل ہی بجھ کر رہ جائے تو ایسی محفلوں کا وجود بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔

شعر 2 :-

شورش سے بھاگتا ہوں ، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو

معانی:👈

  • شورش : غل غپاڑہ، ہنگامہ۔ تقریر : بولنے کی حالت۔
  • بھاگنا : مراد پسند نہ کرنا۔

تشریح :- اب تو دنیا کے شور و شر سے طبیعت بیزار ہو کر رہ گئی ہے چنانچہ مجھے ایسی خاموشی اور سکوت کی تلاش ہے جس پر تقریر کو بھی رشک آ جائے۔

شعر 3 :-

مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو

معانی:👈

  • دامن : وادی۔

تشریح :- میں تو اب پر سکون زندگی پر فدا ہونے کا خواہاں ہوں اور اتنی ہی آرزو ہے کہ کسی پہاڑ کے دامن میں ایک مختصر سا جھونپڑا میسر آ جائے جہاں ساری دنیا سے الگ تھلگ پرسکون زندگی بسر کر سکوں۔

شعر 4 :-

آزاد فکر سے ہوں، عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو

معانی:👈

  • فکر سے آزاد : غموں دکھوں سے نجات پانے والا۔
  • عزلت : تنہائی کا کونا۔
  • دن گزارنا : زندگی بسر کرنا۔

تشریح :- صورت یہ ہو کہ انتہائی تنہائی میں دن گزارنے کے باوجود ہر قسم کے فکر و فاقے سے آزاد ہو جاؤں اور یہاں دنیا کا ایسا کوئی غم نہ ہو جو میرے سکون کو برباد کر سکے۔

شعر 5 :-

لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو

معانی:👈

  • سرود : نغمہ، گیت۔
  • چہچہوں : جمع چہچہا، پرندوں کے بولنے کی آواز۔
  • شورشوں : جمع شورش، غل ، شور۔

تشریح :- میرے مسکن کے گردوپیش کی کیفیت یہ ہو کہ چڑیوں کی چہچہاہٹ میں نغمے بکھر رہے ہوں اور بہتے ہوئے چشموں کی صداؤں میں باجا سا بجتا محسوس ہو رہا ہو۔

شعر 6 :-

گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جامِ جہاں نما ہو

معانی:👈

  • چٹک کر : کِھل کر۔
  • کسی کا : مراد محبوب حقیقی کا۔
  • ساغر : شراب کا پیالہ، کلی کو کہا۔
  • جامِ جہاں نما : ایسا پیالہ جس میں دنیا نظر آئے۔

تشریح :- کلیاں جب چٹکیں تو یوں لگے جیسے وہ کسی کا پیغام مجھ تک پہنچا رہی ہیں ۔ کلیوں اور پھولوں کے شگفتہ دہانے میرے لیے ایسے ساغر کی حیثیت اختیار کر لیں جن میں تمام مناظر فطرت کا جائزہ لے سکوں۔

شعر 7 :-

ہو ہاتھ کا سرہانا، سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو

معانی:👈

  • سبزہ : گھاس۔
  • جلوت : بزم، انجمن۔

تشریح :- اس جھونپڑے میں جب آرام کی خواہش ہو تو فرش زمین کی سبز سبز گھاس میرا بچھونا ہو اور سرہانا خود میرا ہاتھ ہو ۔ اس لمحے ایسی تنہائی کا عالم ہو جو انجمن آرائی سے کہیں دلنشیں محسوس ہو۔

شعر 8 :-

مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مِرا ہو

معانی:👈

  • مانوس : ملی ہوئی، عادی۔

تشریح :- وہاں موجود بلبل اور دوسرے ننھے ننھے پرندے مجھ سے اس طرح مانوس ہو جائیں جس طرح کہ ان کے دل سے ہرطرح کا خوف دور ہو گیا ہو۔

شعر 9 :-

صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو

معانی:👈

  • صف باندھے : قطاروں کی صورت میں۔
  • تصویر لینا : صاف پانی میں عکس اتارنا۔

تشریح :- یہی نہیں بلکہ ہر جانب سرسبز پودے پوری شان و شوکت سے ایستادہ ہوں ۔ سامنے ندی کا شفاف پانی ایسے بہہ رہا ہوجس طرح کہ اس میں ان پودوں کی تصویر منعکس ہو رہی ہو۔

شعر 10 :-

ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر، اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو

معانی:👈

  • دل فریب : دل کو بھانے والا۔

تشریح :- یہاں موجود پہاڑوں کا نظارہ بھی اتنا دلکش ہو کہ ندی اور چشموں کا پانی موجوں کی صورت میں بلند ہو کر جس کو دیکھ سکے۔

شعر 11 :-

آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو

معانی:👈

  • آغوش : گود، پہلو۔

تشریح :- سرسبز گھاس اس طرح سے ایستادہ ہو جیسے کہ وہ زمین کی آغوش میں محو خواب ہو ۔ اور جہاں تک بہتے ہوئے پانی کا تعلق ہو وہ جھاڑیوں میں سے گزرتا ہوا شفاف آئینے کی مانند چمک رہا ہو۔

شعر 12 :-

پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو

معانی:👈

  • حسین : خوبصورت
  • آئینہ : شیشہ، کانچ۔

تشریح :- پھر اس بہتے ہوئے پانی کو پھولوں کی ٹہنیاں اس طرح سے چھو رہی ہوں جیسے کوئی خوبرو حسینہ آئینہ دیکھ رہی ہو۔

شعر 13 :-

مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سُرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو

معانی:👈

  • شام کی دلہن : مراد شام۔
  • مہندی : اشارہ ہے شفق کی طرف۔
  • سرخی : چہرے کو ملنے والا غازہ۔
  • قبا : لباس۔

تشریح :- وقت غروب جب سورج کی سرخی اور سنہری کرنیں شام کے وقت عکس ریز ہوں تو یوں محسوس ہو جیسے دلہن کو مہندی لگائی جا رہی ہے ۔ پھولوں کی کیفیت بھی ایسی ہو جیسے وہ سرخ اور سنہرے رنگ کی قبا پہنے ہوئے ہوں۔

شعر 14 :-

راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
اُمید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو

تشریح :- رات کے راہی جب سفر کرتے کرتے تھک کر رہ جائیں تو میرے جھونپڑے کے دیئے کی دھندلی روشنی ان کے لیے امید کی علامت بن جائے۔

شعر 15 :-

بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سُو بادل گھِرا ہوا ہو

معانی:👈

  • کٹیا : جھونپڑی۔
  • ہر سو : ہر طرف۔
  • بادل گھرنا : بادل چھا جانا۔

تشریح :- اور جب آسمان پر ہر طرف بادل چھائے ہوئے ہوں اور راستہ نظر نہ آئے تو بجلی اس طرح سے چمک اٹھے کہ اس کی روشنی میں ان تھکے ہوئے مسافروں کو میری کٹیا نظر آئے۔

شعر 16 :-

پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی موذن میں ا
س کا ہم نوا ہوں وہ میری ہم نوا ہو

معانی:👈

  • موذن : اذان دینے والا، والی۔
  • ہمنوا : ساتھ مل کر بولنے، گانے والا۔

تشریح :- یہی نہیں جب رات کے آخری لمحات میں صبح کے موذن کی طرح کوئل کی صدا بلند ہو تو میں اس کا ساتھ دوں اور اسی طرح وہ میری ہم نوا بھی ہو۔

شعر 17 :-

کانوں پہ ہو نہ میرے دَیر و حرم کا احساں
روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو

معانی:👈

  • روزن : سوراخ۔
  • سحر نما : دن چڑھنے کا پتہ دینے والا۔

تشریح :- مسجدوں اور مندروں سے سحر کے عبادت گزاروں کو مطلع کرنے کے لیے جو اذانیں بلند ہوتی ہیں اور ناقوس کی صدا آتی ہے مجھے ان کی ضرورت نہ ہو بلکہ طلوع ہوتے ہوئے آفتاب کی کرنیں میری جھونپڑی کے سوراخ سے اندر داخل ہو کر مجھے بیدار ی کا پیغام دیں۔

شعر 18 :-

  • پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
  • رونا مرا وضو ہو، نالہ مری دُعا ہو

تشریح :- اور جس لمحے صبح دم شبنم پھولوں پر اس طرح برسے جیسے انہیں وضو کرا رہی ہو تو اس لمحے میری آہ و فغاں میرے لیے وضو اور دعا کا کام دے۔

شعر 19 :-

اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو

معانی:👈

  • نالہ : فریاد۔
  • درا : قافلے کی گھنٹی۔

تشریح :- اس خامشی کے عالم میں میری آہ و فغاں اتنی بلند ہو جائے کہ تاروں کے قافلوں کے لیے آغاز سفر کا سبب بن جائے۔

شعر 20 :-

ہر درد مند دل کو رونا مرا رُلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے

معانی:👈

  • دردمند : غمگین، دکھوں کا مارا۔
  • بے ہوش : غافل، عمل اور جدوجہد نہ کرنے والا۔

تشریح :- یوں میرا رونا اس قدر موثر ثابت ہو کہ ہر دردمند دل بھی میرے ہمراہ گریہ کناں ہو جائے اور میری آہ و فغاں سے جو صدا بلند ہو ممکن ہے کہ ان لوگوں کی بیداری کا سبب بن جائے جو ایک عرصے سے مست و بے ہوش پڑے ہیں 

تحریر 🔺محمد طیب عزیز خان محمودی🔺