نظم اردو کی تشریح

0

شاعر اور نظم کا حوالہ

یہ نظم “اردو” سے لیا گیا ہے اس کے شاعر کا نام علی سردار جعفری ہے۔ اس نظم میں شاعر نے اردو زبان کی خوبیاں بڑے دلکش اور مؤثر انداز میں بیان کی ہیں۔

شعر 1:-

ہماری پیاری زبان اردو،
ہماری نغموں کی جان اردو،
حسین دل کش جوان اردو،
زبان وہ دھل کے جس کو گنگا کے جل سے پاکیزگی ملی ہے،
اودھ کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے جس کے دل کی کلی کھلی ہے،
جو شعر و نغمہ کے خلد زاروں میں آج کوئل سی کوکتی ہے!

تشریح:- اس بند میں شاعر اردو زبان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اردو ہماری پیاری زبان ہے، ہمارے نغموں میں جان اردو کی بدولت ہے۔ اردو زبان ایک حسین اور دلکش جوان کے مانند ہے، جسے ہر انسان پسند کرتا ہے۔ اسی طرح اردو زبان ایک شیریں زبان ہے اسی لیے سب لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ یہ وہ زبان ہے جس کو گنگا کے پانی نے پاک کیا۔ اودھ کی ٹھنڈی ہواؤں نے اس کے دل کی کلی کو کھلایا ہے۔ مطلب یہ کہ اودھ کے نوابوں اور راجاؤں نے اس زبان کی بڑی قدر کی اور اس کے فروغ میں ایک اہم رول ادا کیا۔ یہ زبان آج شعروں شاعری اور گیتوں کی محفلوں میں کوئل کی طرح کوکتی ہے۔ یعنی اردو زبان کی شاعری کو سب پسند کرتے ہیں۔

شعر 2:-

اسی زباں میں ہمارے بچپن نے ماؤں سے لوریاں سنی ہیں،
جوان ہو کر اسی زباں میں کہانیاں عشق نے کہی ہیں،
اسی زباں کو چمکتے ہیروں سے علم کی جھولیاں بھری ہیں،
اسی زباں سے وطن کے ہونٹوں نے نعرۂ انقلاب پایا،
اسی سے انگریز حکمرانوں نے خود سری کا جواب پایا،
اسی سے میری جواں تمنا نے شاعری کا رباب پایا!

تشریح:- شاعر کہتا ہے اردو سے ہمارا تعلق بچپن سے ہے۔ کیونکہ بچپن میں ماں جو لوری سناتی تھی وہ اردو میں ہی ہوتی تھی اور بڑے ہونے پر اسی زبان میں حسن و عشق کی داستانیں سنی۔ اس زبان کے خوبصورت الفاظ کے وسیلے سے ہم نے علم حاصل کیا۔ مطلب یہ کہ اردو صرف شعرو سخن کی زبان نہیں بلکہ علوم و فنون کی بھی زبان ہے۔ اس زبان میں علم و فن کی اچھی اچھی کتابیں ملتی ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ انقلاب زندہ باد کا نعرہ اردو زبان ہی کی دین ہے۔ اس نعرے نے ہندوستانیوں میں ایسا جوش و خروش پیدا کیا کہ وہ اپنی آزادی کے لیے انگریزوں سے لڑنے کو تیار ہوۓ اور ہمیں آزادی ملی۔ شاعر کہتا ہے کہ اسی زبان کی بدولت میری جوان آرزوئیں شاعری کا ایک ساز بن گئی یعنی میں نے اپنی آرزوؤں اور خواہشوں کو اردو شاعری میں بیان کیا۔

شعر 3:

یہ اپنے نغمات پر اثر سے دلوں کو بیدار کر چکی ہے،
یہ اپنے نعروں کی فوج سے دشمنوں پہ یلغار کر چکی ہے،
ستم گروں کی ستم گری پر ہزارہا وار کر چکی ہے،
کوئی بتاؤ وہ کون سا موڑ ہے جہاں ہم جھجک گئے ہیں،
وہ کون سی رزم گاہ ہے جس میں اہل اردو دبک گئے ہیں،
وہ ہم نہیں ہیں جو بڑھ کے میداں میں آئے ہوں اور ٹھٹھک گئے ہیں،
یہ وہ زباں ہے کہ جس نے زنداں کی تیرگی میں دئیے جلائے،
یہ وہ زباں ہے کہ جس کے شعلوں سے جل گئے پھانسیوں کے سائے،
فراز دار و رسن سے بھی ہم نے سرفروشی کے گیت گائے!

تشریح:-شاعر کہتا ہے کہ یہ وہ زبان ہے جس میں لکھے جانے والے گیت اثردار ہوتے ہیں اور دلوں میں چاہتیں پیدا کرتے ہیں۔ اردو زبان میں جوش سے بھرے نعرے لگا کر فوج نے دشمنوں کو للکارا اور ظالموں کے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی۔ یہی وہ زبان ہے جس نے قید خانوں میں بند آزادی کے متوالوں کو ہمت بخشی اور ان میں حوصلہ پیدا کیا۔ اسی زبان کے پُر جوش اشعار پڑھتے ہوۓ آزادی کے متوالوں نے قید خانوں کی پریشانیاں برداشت کی۔ اور ہنستے ہنستے پھانسی کے پھندے کو گلے سے لگا لیا۔ جعفر شاعرانہ انداز میں کہتے ہیں کہ: “یہ وہ زبان ہے جس کے شعلوں سے جل گۓ پھانسیوں کے ساۓ۔ ” اس اردو زبان ہی کی وجہ سے مرتے دم تک نوجوان سرفروشی کے گیت گاتے رہے۔

شعر 4:-

چلے ہیں گنگ و جمن کی وادی میں ہم ہوائے بہار بن کر،
مالیہ سے اتر رہے ہیں ترانۂ آبشار بن کر،
رواں ہیں ہندوستاں کی رگ رگ میں خون کی سرخ دھار بن کر،
ہماری پیاری زبان اردو،
ہماری نغموں کی جان اردو،
حسین، دل کش جوان اردو!

تشریح:- نظم کے آخری شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اردو بولنے والوں، شاعروں اور ادیبوں کے ذریعے یہ زبان وادئ گنگا و جمنا میں ہواۓ بہار بن کر چل رہی ہے۔ یعنی اس کے سریلے نغمے چاروں طرف سنائی دے رہے ہیں۔ جس طرح ہمالیہ کی چوٹیوں سے پانی کا جھرنا اتر کر وادی میں پہنچتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والی آواز دلکش معلوم ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح تیرے نغمے بھی دلوں کو بھانے والے ہیں۔ جس طرح انسان کے جسم میں خون کا دوڑنا زندگی کی علامت ہے۔ اسی طرح اردو بولنے والے شاعر اور ادیب ہندوستان کی رگوں میں دوڑنے والا خون ہیں۔
اس میں شاعر کی مراد یہ ہے کہ شمال سے جنوب تک اردو زبان لکھی پڑھی، سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ اس کی وجہ اردو کی شیرینی ہے۔ یہ محبت کے نغموں کی زبان ہے۔ اور حسین و جمیل و دلکش ہے۔

مختصر یہ کہ اردو زبان کی شیرینی نے اسے ہندوستان کی ہر دل عزیز زبان بنا دیا ہے۔ اردو کی اہمیت کا اندازہ اردو کے مشہور شاعر داغ دہلوی کے اس شعر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے_*
*“`اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ“`
**“`سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے“`

سوالات و جوابات

سوال 1:- پہلے بند میں شاعر نے اردو کے ساتھ اپنے عشق کا اظہار کس طرح کیا ہے؟

جواب :- شاعر نے اردو کو حسین اور دلکش زبان کہہ کر اپنے عشق کا اظہار کیا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس زبان کو گنگا کے پاک پانی سے پاکیزگی ملی اور اودھ کی ٹھنڈی ہوا نے اسے نوازا اور یہ زبان اردو شعرو شاعری کی محفلوں میں کوئل کی طرح کوکتی ہے۔ مطلب اردو زبان کی مٹھاس سے سامعین لطف اندوز ہوتے ہیں۔

سوال 2:- بچپن، جوانی اور علم و آگہی کی منزلوں میں اردو کس کس طرح ہمارے ساتھ رہی ہے؟

جواب:- بچپن میں ماں کی لوریوں کے روپ میں، جوانی میں عشق و محبت کی داستانوں کے روپ میں، اردو نے ہی علم و آگہی عطا کی ہے یعنی یہ زبان صرف شعرو شاعری کی زبان نہیں ہے بلکہ علوم و فنون کی زبان بھی ہے۔

سوال 3:- تحریک آزادی میں اردو کا کیا رول رہا ہے؟

جواب :- تحریک آزادی کا مشہور نعرہ جس نے جوانوں میں جوش و خروش پیدا کیا وہ “انقلاب زندہ باد” ہے جو اردو ہی کی دین ہے۔ اس کے علاوہ شاعروں اور سیاست دانوں، قومی رہنماؤں اور ادیبوں نے بھی اپنی تقریر و تحریر کے ذریعہ عوام کو بیدار کیا۔ اور ان میں آزادی کا جوش پیدا کیا۔ ہمارے شاعروں نے یہ کام بخوبی انجام دیا۔ اس کی مثال پیش ہے:
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والوں
تمہاری داستان تک باقی نہیں رہے گی داستانوں میں

سوال 4:- ہندوستان کی زینت ہندوستانیوں سے ہے۔ اس حقیقت کا اظہار شاعر نے نظم کے تین مصرعوں میں کیا ہے وہ تین مصرعے کون سے ہیں؟

جواب:- چلے ہیں گنگ و جمن کی وادی میں ہواۓ بہار بن کر
ہمالیہ سے اتر رہے ہیں ترانہ ابشار بن کر
رواں ہیں ہندوستان کی رگ رگ میں خون کی سرخ دھار بن کر

تحریر محمد طیب عزیز خان محمودی