خوب رویوں سے یاریاں نہ گئیں

0

غزل

خوب رویوں سے یاریاں نہ گئیں
دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں
عقل صبرآشنا سے کچھ نہ ہوا
شوق کی بے قراریاں نہ گئیں
ہوش یاں سد راہ علم رہا
عقل کی ہرزہکاریاں نہ گئیں
تھے جو ہمرنگ ناز ان کے ستم
دل کی امیدواریاں نہ گئیں
مر کے بھی خاک راہ یار ہوئے
اپنی الفت وقت شعاریاں نہ گئیں
طرز مومنؔ میں مرحبا حسرتؔ
تیری رنگیں نگاریاں نہ گئیں

تشریح

خوب رویوں سے یاریاں نہ گئیں
دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں

شاعر کہتا ہے کہ خوب صورت لوگوں یعنی محبوب لوگوں کو دیکھتے ہی ہمارا دل مچل اُٹھتا ہے۔ان سے دوستی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ان کو دیکھتے ہی اس میں بے قراری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور مزے دار بات یہ ہے کہ اس کا ہمیشہ خمیازہ اسے بُھگتنا پڑتا ہے۔پھر بھی اس دل کی بےقراری ہی جاتی ہے اور نہ ہی محبوب لوگوں سے اس کی دوستی۔

عقل صبرآشنا سے کچھ نہ ہوا
شوق کی بے قراریاں نہ گئیں

عقل جو صبر آشنا ہے اس نے طرح طرح کی تدابیر کر کے دیکھ لیا لیکن سب بے سود کہ محبت کی بے قراریاں بڑھتی ہی رہیں۔ ختم نہیں ہوسکیں۔

تھے جو ہمرنگ ناز ان کے ستم
دل کی امیدواریاں نہ گئیں

شاعر کہتا ہے کہ محبوب جو مکمل ناز ہے۔اس کے ستم بھی جاری رہے اور دل کی امیدواری، کہ کبھی ہماری آہیں رنگ لائیں گی اور وہ ہم پر کرم کرے گا، بھی برابر قائم رہی۔

مر کے بھی خاک راہ یار ہوئے
اپنی الفت وقت شعاریاں نہ گئیں

شاعر کہتا ہے کہ ہم وفا پرست تھے اور وفا شاعری ہماری شخصیت کا ایسا جز و بن گئی کہ مرنے کے بعد بھی یہ چیز گئی نہیں۔ہم ہر وقت محبوب کے کوچے ہی میں پڑے رہتے تھے اور مرنے کے بعد اسی محبوب کے کوچے کی خاک ہو گئے۔گویا یہ ہماری وفا شاعری کی دلیل ہے۔

طرز مومنؔ میں مرحبا حسرتؔ
تیری رنگیں نگاریاں نہ گئیں

مومنؔ اردو کے ایک بڑے غزل گو شاعر کا تخلص ہے۔اس کے کلام میں نازک خیالی کے ساتھ ساتھ رنگینی بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔اب حسرتؔ کہتے ہیں کہ اے حسرتؔ طرز مومن میں تمہارا کلام مرحبا ہے۔اس کی رنگینی دیکھتے ہی بنتی ہے اور تمہارے کلام کی رنگین نگاری قائم ہے۔