عشق میں جان سے گزُر جائیں

0

غزل

عشق میں جان سے گزُر جائیں
اب یہی جی میں ہے، کہ مر جائیں
یہ ہمیں ہیں، کہ قصرِ یار سے روز
بے خطر آ کے بے خبر جائیں
جامہ زیبی نہ پوچھیے اُن کی !
جو بگڑنے میں بھی سنور جائیں
شب وہی شب ہے، دن وہی دن ہیں
جو تِری یاد میں گزُر جائیں
شعر دراصل، ہیں وہی حسرت !
سُنتے ہی دل میں جو اُتر جائیں

تشریح

عشق میں جان سے گزُر جائیں
اب یہی جی میں ہے، کہ مر جائیں

عشق میں جس طرح کی مصیبتیں اٹھائی ہیں اس سے دل گھبرا گیا ہے اور اب یہی اس دل میں ہے کہ اب جان ہی سے گزر جائیں گے۔ یعنی مرجائیں کہ اس عذاب سے نجات ملے۔

یہ ہمیں ہیں، کہ قصرِ یار سے روز
بے خطر آ کے بے خبر جائیں

شاعر کہتا ہے کہ یہ ہمارا حوصلہ ہے کہ محبوب کے در تک بے خطر چلے آتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہاں ہمارے ساتھ جو سلوک ہوگا اس سے ہماری جان پر بن جائے گی اور جب واپس جاتے ہیں تو اپنی حالت تک سے بھی بے خبر ہو جاتے ہیں۔

جامہ زیبی نہ پوچھیے اُن کی !
جو بگڑنے میں بھی سنور جائیں

شاعر کہتا ہے کہ ہمارے محبوب کی جامہ زیبی کی کیا کہیے۔ اس کا بِگڑنا بھی سنور جانے کی طرح ہوتا ہے۔گویا جیسے بھی لباس پہنے اس کو بھلا لگتا ہے۔

شب وہی شب ہے، دن وہی دن ہیں
جو تِری یاد میں گزُر جائیں

شاعر کے نزدیک زندگی کا حاصل محبوب کی یاد ہے۔ لہٰذا وہ اسی دن کو صحیح معنوں میں دن اور اسی رات کو رات تصور کرتا ہے جو محبوب کی یاد میں گزرتے ہیں۔

شعر دراصل، ہیں وہی حسرت !
سُنتے ہی دل میں جو اُتر جائیں

اچھے شعر کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ دل میں اتر جاتا ہے۔گویا تاثیر شعر کی ایک بڑی خوبی ہے۔ لہٰذا شاعر کہتا ہے کہ اے حسرتؔ دراصل اچھا شعر وہی ہے جو سُنتے ہی دل پر نقش ہو جائے۔دل میں اثر پیدا کرے۔