وفا سے دُشمنی رکھ کر میرے دل کی طلب گاری

0

غزل

وفا سے دُشمنی رکھ کر میرے دل کی طلب گاری
بہت مشکل ہے اس جنس گرمی کی خریداری
ہوئیں ناکامیاں، بدنامیاں، رسوائیاں کیا کیا
نہ چھوٹی ہم سے لیکن کوئے گر جاناں کی ہواداری
نہیں غم جیب وداماں کا مگر ہاں فکر اتنی ہے
نہ اٹھے گا مرے دست جنوں سے رنج بیکاری
نہ ان کو رحم آتا ہے نہ مجھ سے صبر ممکن ہے
کہیں ایسا نہ ہو یارب محبت کی یہ دشواری
وفور اشک پہیم سے،ہجوم شوق بے حد ہے
میری آنکھوں سے ہے اک آبشار آرزو جاری
نہ دیکھے اور دل عشاق پر پھر بھی نظر رکھے
قیامت ہے نگاہ یار کا حسن خبرداری

تشریح

وفا سے دُشمنی رکھ کر میرے دل کی طلب گاری
بہت مشکل ہے اس جنس گرمی کی خریداری

دل کوئی ایسی شے نہیں ہے جس کو خریدا جا سکے۔ اب شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب میرا دل انمول ہے لیکن وفا کرنے سے یہ انمول چیز حاصل ہو سکتی ہے۔ وفا سے دشمنی رکھ کر اس کی طلب کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ معظم جنس، یہ انمول شے ہے۔ اس انداز سے اس کی خریداری کچھ احسان نہیں ہے۔

ہوئیں ناکامیاں، بدنامیاں، رسوائیاں کیا کیا
نہ چھوٹی ہم سے لیکن کوئے گر جاناں کی ہواداری

ہم کو محبت میں نہ جانے کیسی کیسی ناکامیاں اور بدنامیاں ملیں ہیں لیکن کوچۂ یار نہیں چھوٹتا۔ یار کی آرزو دل سے نہیں نکل سکی۔

نہیں غم جیب وداماں کا مگر ہاں فکر اتنی ہے
نہ اٹھے گا مرے دست جنوں سے رنج بیکاری

دیوانگی کی حالت میں عاشق نے اپنا دامن چاک کرلیا ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ ہمیں اس بات کا غم نہیں ہے کہ ہم نے اپنا دامن چاک کر لیا ہے بلکہ اس بات کا غم ہے کہ اب کیا کریں۔چاک کرنے کو تو کچھ بچا نہیں ہے۔

نہ ان کو رحم آتا ہے نہ مجھ سے صبر ممکن ہے
کہیں ایسا نہ ہو یارب محبت کی یہ دشواری

نہ ہی محبوب کو ہماری زار حالت پر رحم آتا ہے اور نہ ہمارے اندر صبر ہی باقی بچا ہے۔لہذٰا اے مالک محبت میں ہماری اس مشکل کو آسان کیجئے یعنی موت سے ہمکنار کیجیے تاکہ اس حالت زار سے نجات ملے۔

وفور اشک پہیم سے،ہجوم شوق بے حد ہے
میری آنکھوں سے ہے اک آبشار آرزو جاری

شاعر کہتا ہے کہ مسلسل آنسوؤں کی زیادتی اور ازحد جذبات محبت کے ہجوم سے ہماری آنکھوں سے گویا آنکھ سے آنسو نہیں بلکہ آرزو کا ایک آبشار جاری ہوگیا ہے۔

نہ دیکھے اور دل عشاق پر پھر بھی نظر رکھے
قیامت ہے نگاہ یار کا حسن خبرداری

نظر اٹھا کر دیکھنا محبوب کا شیوہ نہیں۔شاعر کہتا ہے کہ وہ عشاق کونظر اٹھا کر کبھی نہیں دیکھتا لیکن تعجب ہے کہ اس کے باوجود محبوب کی نگاہ سب کی خبر رکھتی ہے۔ اس کی خبر داری اس کی خوبی کے کیا کہنے۔