بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں

0

غزل

بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الہیٰ ترکِ اُلفت پر وہ کیوں کر یاد آتے ہیں
نہ چھیڑ اے ہم نشیں، کیفیت صہبا کے افسانے
شراب بے خودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں
رہا کرتے ہیں قید ہوش میں، اے وائے ناکامی
وہ دشتِ خود فراموشی کے چکر یاد آتے ہیں
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
حقیقت کھل گئی حسرتؔ ترے ترکِ محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

تشریح

بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الہیٰ ترکِ اُلفت پر وہ کیوں کر یاد آتے ہیں

غزل کے مطلع میں شاعر کہتا ہے کہ محبت میں کچھ ایسی ہی پریشانیں اٹھائی ہیں کہ اب اس سے توبہ کیے بیٹھے ہیں۔لہذا ہم محبوب کو بُھلانا چاہتے ہیں اور اس کو بھلانے کی لاکھ سعی بھی کرتے ہیں مگر نہ جانے کیا بات ہے کہ وہ برابر یاد آتا ہے۔یا خدا ہماری ترکِ محبت پر وہ کیوں بار بار یاد آتے ہیں۔شاید یہ وہ آگ ہے جو لگائے لگتی نہیں اور بجھائے بجھتی نہیں۔

بقول غالب؀

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
نہ چھیڑ اے ہم نشیں، کیفیت صہبا کے افسانے
شراب بے خودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں

شاعر کہتا ہے کہ اے میرے ہم نشین صہبا یعنی سرخ شراب کی کیفیت،اس کے سرور کے قصّے مت چھیڑ۔کیونکہ جب تو وہ افسانہ چھیڑتا ہے تو مجھے محبوب کی مد بری آنکھیں یاد آ جاتی ہیں۔اور جب ان کی چشم نرگس کے ساغر یاد آتے تو میری حالت ایک بے خود انسان کی سی ہو جاتی ہے۔گویا میں خودی میں نہیں رہتا۔

رہا کرتے ہیں قید ہوش میں، اے وائے ناکامی
وہ دشتِ خود فراموشی کے چکر یاد آتے ہیں

عاشق کی پہچان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ بے خود رہتا ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ ہم ہوش کی قید میں رہتے ہیں یعنی ہوش میں رہتے ہیں اور ظاہر ہے ناکامی کی صورت ہے۔لہذا شاعر افسوس کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ جو ہم پر خود فراموشی کا عالم طاری ہوا کرتا تھا اور اس بے خودی میں جو ہم جنگل جنگل چکر لگاتے تھے یاد آ رہا ہے۔

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہمیں محبوب کی اکثر یاد آتی رہتی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کی یاد مہینوں نہ آئے۔ مگر جب پھر ان کی یاد آتی ہے تو بہت شدت سے آتی ہے۔

حقیقت کھل گئی حسرتؔ ترے ترکِ محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

غزل کے مقطع میں شاعر کہتا ہے کہ اے حسرتؔ تو جو کہتا ہے کہ تم نے محبت کو چھوڑ دیا ہے، ترک کر دیا ہے، سب غلط ہے۔اس کی حقیقت اب عیاں ہوگئی ہے کیوں کہ اب تمھیں وہ پہلے سے بھی زیادہ یاد آ رہا ہے۔لہذا تیری ترکِ محبت کا دعویٰ درست نہیں ہے۔