دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

0
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کیا ہستی ہے

مطلع میں فانی دنیا سے اپنی بےزاری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مجھے اس دنیا سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔یہ دنیا جیسی بھی ہے مجھے اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔میری خوددار طبیعت کا عالم تو یہ ہے کہ اگر مجھے موت مفت میں ملتی ہے تو میں لینے سے انکار کروں گا،دنیا کی اس زندگی کی میری سارے وقعت ہی کیا ہے۔شاعر دنیا سے بےزار ہے اور اپنی خود داری کے سبب دنیا سے کوئی احسان لینا نہیں چاہتا ہے۔

آبادی بھی دیکھی ہے، ویرانے بھی دیکھیں ہیں
اجڑے اور پھرنہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے

شاعر فرماتے ہیں کہ میں نے طرح طرح کی بستیاں بھی دیکھی ہیں اور ویران جگہیں بھی دیکھی ہیں لیکن دل کی جیسی انوکھی بستی میں نے کبھی اور کہیں نہیں دیکھی۔یہ اگر ایک بار اجڑ جائے تو دوبارہ اس کو بسا ناممکن ہوتا ہے ۔یعنی دل بہت ہی نازک ہے،ایک بار ٹوٹ جائے تو اسے دوبارہ جوڑا نہیں جا سکتا۔

جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں
آگے مرضی گا ہک کی،ان داموں توسستی ہے

فرماتے ہیں کہ محبوب کی نظر کسی کا دل لینے کے ساتھ ساتھ اس کی جان بھی لے لیتی ہے۔لیکن یہ ضروری نہیں کہ محبوب کسی کے دل اور جان کی کوئی قدر کرے۔یہ تو اس کی مرضی ہے کہ وہ محبت کا جواب کس انداز میں دے۔اسے تو عاشق کی جان ایک نظر کے بدلے میں سستی معلوم ہوتی ہے۔عاشق ایک ہی نظر میں اپنی دل کے ساتھ ساتھ اپنی جان بھی محبوب پر قربان کر دیتا ہے لیکن محبوب نہ اس کے دل کی قدر کرتا ہے اور نہ اس کی جان کی کوئی پروا کرتا ہے۔

جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا
جب بھی دنیا بستی تھی،اب بھی دنیا بستی ہے

شاعر محبوب سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ تمہارے ہجر میں رو رو کر میں نے اپنی آنکھیں گنوادی ہیں،باقی تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا دنیا تو تب بھی آباد تھی اور آج بھی آباد ہے۔کسی کی زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔بس ایک میں ہوں کہ جس کی دنیا تمہارے بغیر مجھے اجڑ کر رہے گی۔

آنسو تھے سو خشک ہوۓ جی ہے کہ امڈا آتا ہے
دل پہ گھٹاسی چھائ،کھلتی ہے نہ برستی ہے

شاعر اپنی محرومی اور اداسی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میری اداسی اور ویرانی کا یہ عالم ہے کہ عمر بھر آہ وزاری کرنے اور رونے کے پیٹنے کے بعد مجھ پر جیسے سکتے کا عالم طاری ہو گیا ہے۔میرے دل کو محرومیوں، نہ امیدوں اور اداسیوں کی گھٹا نے گھیرا ہوا ہے۔اور میں دم بخود ہوں۔

دل کا اجڑنا سہل سہی،بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں ہے, بستے بستے بستی ہے

شاعر اس حقیقت کی وضاحت کرتے ہیں کے دل معمولی سی ٹھیس سے ٹوٹ جاتا ہے ہے۔اور دل کا یہ نگر جلدی ہی اجڑ جاتا ہے لیکن ایک بار جب دل کی نگری اجڑ جاتی ہے تو اسے دوبارہ بسانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔دل کی بستی بسا نا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔یہ وہ بستی ہے جو مشکل سے ہی بسائی جاتی ہے۔گویا ایک بار دل ٹوٹ گیا تو دوبارہ اسے جوڑ نا بہت مشکل بلکہ ناممکن کام ہے۔

فانی! جس میں آنسو کیا دل کے لہو کا دل نہ تھا
ہاۓ! وہ آنکھ اب پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے

شاعر اپنے آپ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ پہلے میں زارو قطار روتا تھا۔آنسو ہی نہیں بلکہ میرے دل کا خون بھی میرے آنکھوں سے آنسو کی شکل میں ٹپکتا تھا۔یعنی میں بہت آ ہ وزاری کرتا تھا اب میری آنکھوں سے آنسو بھی سوکھ گئے ہیں۔