افسانہ درد کا مارا، خلاصہ، سوالات و جوابات

0

سوال: افسانہ پر ایک مختصر نوٹ لکھیے۔

افسانہ سے مراد ہے ایک کہانی جس کا ایک پلاٹ ہو، جس میں مکالمے ہوں، کردار ہوں اس کی کہانی مختصر اور زندگی کے کسی ایک پہلو کو پیش کرتی ہو۔ اسے مختصر افسانہ یا Short story بھی کہتے ہیں۔ مختصر افسانے میں وحدت تاثر بھی ہوتا ہے۔ جب کہ ناول کا کینوس بہت وسیع ہوتا ہے اس میں پھیلاؤ کی کنجایش ہوتی ہے۔ ناول طویل ہوتا ہے جبکہ افسانہ ایک نشست میں پڑھا جا سکتا ہے۔

اردو کے مشہور افسانہ نگاروں میں کرشن چندر، علی عباس حسینی ، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، اقبال مجید ،جیلانی بانو اور قرة العین حیدر وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

سوال: پشکر ناتھ کے حالات زندگی اور ادبی خدمات پر مختصر نوٹ لکھیے۔

پشکر ناتھ سرینگر کے محلہ بٹہ یار میں 31 مئی 1932ء میں پیدا ہوئے۔ بی اے کرنے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کی اور ایک مدت تک اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر سے منسلک رہے۔ عمر کا زیادہ حصہ جموں میں گزارا۔

پشکر ناتھ ہماری ریاست اور بیرونِ ریاست کے ادبی حلقوں میں اچھی طرح متعارف ہیں۔ان کی ادبی زندگی کا آغاز سن 1953ء میں ملک کے نامور جریدے “بیسویں صدی ” میں ان کے پہلے افسانے” کہانی پھر ادھوری رہی ” کی اشاعت سے ہوا۔اس کے بعد ان کی کہانیاں برصغیر ہندو پاک کے بہت سے رسائل اور جرائد میں چھپنے لگیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندو پاک دونوں ممالک میں ان کی شہرت ہونے لگی۔

پشکر ناتھ کے افسانوی مجموعے کچھ اس طرح ہیں: اندھیری اجالے، ڈل کی باسی، عشق کا چاند اندھیرا اور کانچ کی دنیا وغیرہ۔ پہلے دو مجموعوں پر انہیں ریاست کلچر آدمی کی طرف سے انعامات ملے۔ افسانوں کے علاوہ انہوں نے بہت سے ریڈیائی اور اسٹیج ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ ان ڈراموں کو بھی وقتاً اعزازات سے نوازا گیا۔ پشکر ناتھ الفاظ کا انتخاب بڑے محتاط طریقے سے کرتے ہیں۔ کشمیر سے تعلق ہونے کی وجہ سے یہاں کے مناظر پھل پھول ، دریا ، جرنے ،موسم کا ذکر ان کی کہانیوں میں اکثر ملتا ہے جس سے ان کے درد کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔

سوالات و جوابات:

سوال : صمد جو نے  جانوروں کی کھالوں میں نیا جسم فٹ کرنے کا فن کس سے سیکھا تھا؟

جواب:صمد جو نے جانوروں کے کھانوں میں نیا جسم فٹ کرنے کا فن اپنے والد رمضان جو سے سیکھا تھا

سوال : صمد جو تھوڑے عرصے میں صاحبِ حیثیت تاجروں میں کیوں شمار ہونے لگا ؟

جواب: صمد جو کی انتھک محنت، فنکارانہ مہارت، سادگی پسند طبیعت اور محنت کی وجہ سے تھوڑے عرصے میں ان کا شمار صاحب حیثیت تاجروں میں ہونے لگا۔

سوال: صمد جو نے چیتے کے بچے کی قیمت کیوں کم کردی؟

جواب: صمد جو کو لڑکی کی بے بسی اور مجبوری دیکھ کر اپنا   زمانہ یاد آیا جب اس کی حالت اس لڑکی سے بھی گئی گزری تھی اور جب کسی اچھی چیز کو دیکھ کر اس لڑکی کی طرح صمد جو کے ہونٹ تھر تھرا تے تھے ، یہی سوچ کر صمد جو  نے چیتےکے بچے کی قیمت کم کردی۔

سوال: انگریز لڑکی نے چیتے کے بچے کی پہلے سے کم قیمت سن کر صمد جو سے کیا کہا؟

جواب : انگریز لڑکی نے چیتے کے بچے کی پہلے سے کم قیمت سن کر صمد جو سے کہا کہ مجھے دیس میں بتایا گیا تھا کہ وہاں سب چیٹر ہیں۔پہلے زیادہ قیمت بولتے ہیں اور پھر کم قیمت میں بھیجتے ہیں 500 روپے لینا ہے تو بات کرو۔

سوال: کشمیر میں پائے جانے والے ان جانوروں پرندوں اور جھیلوں کے نام لکھیے جن کا ذکر اس افسانے میں آیا ہے؟

جانور : بارہ سنگھے، مارخور ،چیتے۔
 پرندے: مرغیاں، راج ہنس، رام چڑیا ،بطخیں
جھیلیں: ہوکرسر، ڈل جھیل، ولر۔

سوال5۔ سیاق و سباق اور مصنف جا حوالہ دے کر درج ذیل پیرا کا ماحصل لکھیے۔

سوچتے سوچتے اچانک صمد جو کو خیال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت بڑا گناہ ہے۔

سوال: سیاق و سباق اور مصنف کا حوالہ دے کر درج ذیل پیراگراف کا ماحصل لکھیے۔

سوچتے سوچتے اچانک صمد جو کو خیال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت بڑا گناہ ہے۔

جواب : یہ اقتباس پشکر ناتھ  کے مضمون “درد کا مارا “سے ماخوذ ہے۔ اس اقتباس میں صمد جو کے دل میں انگریز لڑکی کے لیے ہمدردی پیدا ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ انگریر لڑکی کے پاس بہت کم پیسے ہیں جس کی وجہ سے وہ چیتے کے بچے کو خرید کر اپنی خواہش پوری نہیں کر سکتی۔

سوال: افسانہ “درد کا مارا” کا خلاصہ۔

اس افسانے کے مرکزی کردار صمد جو ،رمضان جو اور ایک انگریز لڑکی ہے اور اس کے علاوہ حاجی محمد اسماعیل ہیں۔ صمد جو ایک دوکاندار تھے اور سرینگر کے بنڈ کے علاقے میں رہتے تھے۔

اس افسانے میں ہونٹوں کی خاموشی اور تھرتھراہٹ کا ذکر کئی بار کیا گیا ہے۔ افسانہ نگار نے دراصل اسے محرومیوں مجبوریوں اور بے کسی و بے چارگی کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ تھرتھراہٹ صمد جو کا ماضی اور دکان کے سامنے بار بار گزرنے والی لڑکی کا حال ہے۔ صمد جو اس تجربے سے گزر چکے ہیں اور لڑکی اس سے دوچار ہے۔ افسانہ نگار نے اس علامت کو افسانے میں ایسی فنکارانہ مہارت سے استعمال کیا ہے کہ صمد جو اور لڑکی کے اندرون میں جھانکنے کے لیے روزن کا کام دیتی ہے۔

افسانے کی ابتدا میں لڑکی کو دکان کے سامنے تیسری بار گزرتے دیکھ کر صمد جو کے ہونٹوں پرمسکراہٹ کا پھیل جانا ، پھر اس مسکراہٹ کا ایک اداس سی کیفیت میں تبدیل ہو جانا ،لڑکی کے لیے اس کے دل میں ہمدردی کے جذبے کا بیدار ہونا ، لڑکی کے رویے سے اس کا دل برداشتہ ہونا اور اس کے کہے ہوئے الفاظ کو چیتے کے بچے کے تیز نوکیلے دانتوں کی طرح اپنی شہہ رگ میں پیوست ہوتے ہوئے محسوس کرنا۔ ان سب کی کیفیات کی وضاحت ہونٹوں کی اس خاموش تھرتھراہٹ سے ہوتی ہے۔ افسانے کی ایک نمایاں خوبی اس کا مقامی رنگ ہے۔

صمد جوکے تشخص کی وضاحت کے لئے افسانہ نگار نے کشمیر کے فطری حسن اور معاشرتی رنگ کو اس منظر کے طور پر استعمال کیا ہے اور ایسی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے کہ ہمارے ذہن میں نہ صمد جو بلکہ عام کشمیری تشخص کا خاکہ مرتب ہوتا ہے۔

افسانے کی زبان سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار ادبی اور افسانوی زبان کے فرق کو بخوبی سمجھتا ہے۔ اس کا واضح ثبوت انگریزی الفاظ اوربمبیئا اردو کا خوبصورت اور برمحل استعمال ہے۔