پری محل ﴿شہ روز کاشمیری﴾

0

شہ زور کاشمیری کی حالات زندگی اور ادبی خدمات۔

غلام قادر شہ زور کاشمیری 27 فروری 1915ء کو چوٹہ بازار سرینگر میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام غلام محمد خان تھا۔ مروجہ ابتدائی تعلیم کے بعد شہ زور کومشن ہائی اسکول میں داخل کیا گیا۔ 1925 میں انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1936 میں ایس پی کالج سے ریاضی کے مضمون میں بی اے کے ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد محکمہ تواضع میں کلکرک کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور ترقی کی مختلف منزلیں طے کرتے ہوئے فانانشل اہڑوائزر کے عہدے تک پہنچے۔

کالج کے استاد کے کہنے پر شہ زور نے حصول تعلیم کے بعد ڈراما نویسی کی اور ”تقدیر و تدبیر، پاک دامن پریم مکتی اور بی اے پاس لاش“ جیسے ڈرامے لکھے۔ جن میں سے بعض شائع بھی ہوئے لیکن بعد میں انہوں نے ڈراما نویسی چھوڑ کر شاعری کی طرف توجہ کی۔ شعروشاعری سے ان کو ابتدائی عمر سے ہی دلچسپی تھی۔ ان کے والد بھی شاعر تھے اور شہ زور کی شاعرانہ صلاحیتوں سے آگاہ تھے۔ چنانچہ وہ شہ زور کو شعر پروردہ کہہ کر پکارتے تھے۔

طالب علمی کے زمانے میں ان کا کلام کالج کی میگزین میں چھپتا رہا۔1937 میں شہ زور علامہ سیماب اکبر آبادی کے شاگردوں کے حلقے میں شامل ہوئے۔ دو سال بعد سیماب نے انہیں فارغ الاصلاح قرار دیا۔ شہ زور کی تخلیقات مقامی اخبارات و رسائل میں بھی چھپتی تھیں لیکن ان کی سب سے پہلی نظم ماہنامہ شاعر ممبئی میں شائع ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی شعری تخلیقات اردو کے مقتدر و ادبی رسائل میں چھپنے لگیں۔ اور ان کی شہرت وادی سے نکل کر برصغیر کے ادبی حلقوں تک پہنچ گئی۔ 19 جون 1990ء میں وفات پائی۔

نظم پری محل کا خلاصہ

”پری محل“ شہ زور کاشمیری کی ایک خوبصورت نظم ہے۔ اس نظم میں شاعر نے یہاں کی صبح شام ،باغات کوہسار، فضا ،گل و بلبل، ڈل ، نظارہ، رونق ، پری محل ، کوہ سبز ،سبز جھاڑی اور چمن کے بارے میں اپنے اظہار خیالات پیش کیے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ مجھے یاد ہے وہ وادی کشمیر کا موسم بہار جب ہر چیز اپنی جان میں ہوتی ہے۔ جب یہاں فضاؤں میں پرندوں کی چہچہاہٹ اور اس طرح کا نظارہ دیکھ کر میرے دل کو سکون محسوس ہوتا ہے۔

شاعر اس نظم میں اپنی والہانہ محبت کا اظہار کر رہا ہے۔ کشمیر کی ہر چیز سے انہیں بہت زیادہ لگاؤ ہے، چاہے وہ ڈل جیل ہو یا کوہ سبز ہر ایک چیز شاعر کے دل کو فرحت اور سکون عطا کرتی ہے۔ جس کے لیے وہ اپنے وطن کی عقیدت سینے میں بسائے ہوئے ہیں۔کبھی شاعر اسے دلہن کا لقب دیتا ہے اور کہیں جنت کے گلاب سے بھی تشبیہ دی ہے جس کو پڑھ کر قاری خوشی محسوس کرتا ہے۔

اس نظم کے سوالوں کے جوابات کے لیے یہاں کلک کریں۔