غزلیات پرتپال سنگھ بیتابؔ، تشریح، سوالات و جوابات

0

سوال: پرتپال سنگھ بیتاب کی ادبی خدمات پر ایک نوٹ لکھیں۔

جواب: پرتپال سنگھ نام بیتاب تخلص 26 جولائی 1949ء کو کھڑی دھرم سال پونچھ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سردار پریم سنگھ ہے۔ اگرچہ تعلیم کے لئے گورنمنٹ پرائمری سکول پونچھ میں داخل کئے گئے لیکن بہت جلد ان کے گھر والے فیروزپور پنجاب چلے گئے۔ فیروز پور میں پرتپال کو منوہر لال ہائرسکندری اسکول میں داخل کیا گیا جہاں نویں جماعت تک پڑھتے رہے۔

جموں واپس آنے کے بعد رنبیر ہائر سیکنڈری اسکول سے انٹرمیڈیٹ اور جی جی ایم سائنس کالج جموں سے بی ایس سی کے امتحان پاس کیے۔ 1972 میں جموں یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر 1975 میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔

پرتپال سنگھ بیتاب بچپن سے ہی ذہین تھے۔ یہ ان کی ذہانت اور محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ 1977 میں انہوں نے کے ایس کا امتحان پاس کیا اور انٹر سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بیتاب ترقی کرتے کرتے کمشنرز کے عہدے تک پہنچ گئے اور2008 میں ریٹائر ہو گئے۔ بیتاب ایک قابل، محنتی، عوام دوست اور ایماندار افسر ہیں۔

شاعرانہ عظمت

بیتاب کو طالب علمی کے زمانے سے ہی شاعری کا شوق تھا لیکن ان کا یہ شوق ان کی نوکری کے زمانے میں نکھر کر سامنے آیا۔ 1981 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ”پیش خیمہ“ شائع ہوا۔ اس کے بعد سے اب تک بہت سارے مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ جن میں ”سراب در سراب ،خود رنگ اور شہر غزل“ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

بیتاب کو ان کے شعری مجموعے پر بہت سارے انعام و اکرام سے نوازا گیا ہے۔ بیتاب آجکل جموں و کشمیر میں شعر و سخن کی محفلوں کی جان بنے ہوئے ہیں اور دن رات گئسوۓ ادب اور اردو کو سنوارنے میں مصروف ہیں۔ خدا ان کی عمر دراز کرے۔

غزل نمبر 1 تشریح:

نہ دے پختہ عمارت اک کھنڑردے
میں بے گھر ہوں مجھے بھی کوئی گھردے

اس شعر میں شاعر نے دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا ہے اور وہ اللہ سے دعا گو ہے ہے کہ موجودہ دور میں انسان کی بنائی گئی اونچی عمارتوں میں انسان کا حال جانوروں سے بدتر ہے جس کو دیکھ کر میں خدا سے دعا مانگتا ہوں اے میرے پروردگار مجھے ان اونچی عمارتوں کی خواہش سے دور کردے اور مجھے وہ گھر دے دے جس میں میں تمہاری عبادت کر سکوں ۔

اگر ہوں راستے پر مطمئن کر
اگر بے سمت ہوں راہ سفر دے

اس شعر میں بھی شاعر اللہ سے دعا گو ہے اور اللہ سے کہتے ہیں ہیں کہ جس طرح میں اپنی زندگی کا سفر کاٹ رہا ہوں اگر یہ صحیح سمت ہے تو میں تو مجھے سکون عطا کر اور اگر یہ غلط راستہ ہے تو مجھے اچھی لگی اور اسی بات پر مجھے چلاؤ شرک کے زمرے میں آتا ہے۔

نہ دے اونچائی میرےقد کو بے شک
مری ہر شاخ کو لیکن ثمر دے

اس شعر میں شاعر یہ کہہ رہے ہیں کہ اے میرے خدا مجھے اچھی ہدایت دے اور یہ کہہ رہا ہے کہ اے خدا مجھے میرے کو اتنا اونچا بھی نہ دے تجھ سے منحرف ہو کر غرور میں مبتلا ہو جاؤ بلکہ جتنا بھی تو نے دیا ہے میں اس کا شکر بجا لاؤ۔

مجھے پتھر ہی پتھر دے دئیے ہیں
اب ان ہاتھوں کو آزر کا بتر دے

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ اے میرے خدا جو کچھ مجھے اپ نے دیا ہے اگر وہ کم ہی ہے مگر مجھے تو اس ہنر سے مالامال کر دیا جو آزر حضرت ابراہیم اسلام کے باپ کو دیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ٹوٹے پھوٹے پتھروں سے ایسے بت تراشتے تھے جو انمول ہوتے تھے ایسے ہنر مجھے بھی عطا کر جس سے میرے ہر شاخ سے ثمر ہی ثمر دستیاب ہوجائے۔

نظر ہے منتظر کس کس ہے بیتاب
صدف مجھ کو کیا ہے تو گہر دے

یہ شعر اس غزل کا مقطع ہے اور اس میں شاعر اپنے خدا سے دعا گو ہے کہ میری نظر اور میرے جاں کی رگ رگ انتظار میں ہے جو تو نے مجھے سیپ بنا دیا ہے تو میں اس میں گوہر کو بھی پیدا کرتا کہ میری عظمت اور وقار بھی بلندی آجائے۔

غزل نمبر 2 تشریح:

ریت ہے اور بیکرانی ہے
اور صحرا کی کیا کہانی ہے

اس شعر میں شاعر اپنی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں کیا ہوں جس پر فخر کیا جائے ۔ میں تو معمولی سا کا ذرہ ہوں جس دور دورتک کوئی کنارہ نہیں ہے۔ اور دور دور تک اس سے بے کنار ریگستان میں صرف یہی چیز ہے اس سے بڑھ کر ریگستان میں کسی چیز کی آس کیسی ہونی چاہیے۔

کھول کر دیکھ در مکانوں کے
لامکانئ ہی لامکانی ہے

اس شعر میں شاعر ہی کہہ رہے ہیں کہ کسی کو اس گمان میں نہیں رہنا چاہیے کہ میں پختہ اور سخت مکان میں رہ کر قدرت سے محفوظ ہو بلکہ اے انسان تمہاری بصیرت ایسی ہو کہ تم مکان میں رہ کر بھی لامکانیت کرو تو لامکانی محسوس کرو گے۔

راستہ کس سے مانگتے ہو یہاں
بیھڑ نے کس کی بات مانی

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ سیلاب قہر جب اتا ہے تو اس وقت انسان اپنے آپ کو کہیں بھی پناہ محفوظ رکھنے کی جگہ یا راستہ کوئی نہیں دے سکتا۔

اپنے قدموں کے نقش غایب ہیں
بے نشانی سی بے نشانی ہے

اس شعر میں شاعر یہ کہہ رہے ہیں کہ یاد تو چند دنوں تک رہتی ہے کوئی کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو چند دنوں نہیں اس کو بھلانےلگتے ہیں اس لیے ایسا کچھ کر جاؤ جو تا قیامت نشانی باقی رہ سکے اور جس کو کوئی انسان مٹا نہیں سکتا۔

ہمیں کچھ رک گئے ہیں بیتاب
ورنہ چاروں طرف روانی ہے

اس شعر میں شاعر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر طرف زندگی کی چاشنی، دلفریبی اور اس کی جاذبیت ابھی برقرار ہے۔ بیتاب تمیں رک گئے ہوں ورنہ زندگی اور کائنات کا سوز ابھی بھی بچ رہا ہے اور اس کی رونقیں ختم نہیں ہوئی ہے۔

سوال: پرتپال بیتاب کے حالات زندگی قلمبند کیجئے۔

جواب: پرتپال سنگھ نام بیتاب تخلص 26 جولائی 1949ء کو کھڑی دھرم سال پونچھ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سردار پریم سنگھ ہے۔ اگرچہ تعلیم کے لئے گورنمنٹ پرائمری سکول پونچھ میں داخل کئے گئے لیکن بہت جلد ان کے گھر والے فیروزپور پنجاب چلے گئے۔ فیروز پور میں پرتپال کو منوہر لال ہائرسکندری اسکول میں داخل کیا گیا۔ جہاں نویں جماعت تک پڑھتے رہے۔

جموں واپس آنے کے بعد رنبیر ہائر سیکنڈری اسکول سے انٹرمیڈیٹ اور جی جی ایم سائنس کالج جموں سی بی ایس سی کے امتحان پاس کیے۔ 1972 میں جموں یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر1975 میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔

پرتپال سنگھ بیتاب بچپن سے ہی ذہین تھے۔ یہ ان کی ذہانت اور محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ1977 میں انہوں نے کے ایس کا امتحان پاس کیا اور انٹر سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بیتاب ترقی کرتے کرتے کمشنرز کے عہدے تک پہنچ گئے اور2008 میں ریٹائر ہو گئے۔ بیتاب ایک قابل محنتی عوام دوست اور ایماندار افسر ہیں۔

شاعرانہ عظمت

بیتاب طالب علمی کے زمانے سے ہی شاعری کا شوق تھا لیکن ان کا یہ شوق ان کی نوکری کے زمانے میں نکھر کر سامنے آیا۔ 1981 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ”پیش خیمہ“ شائع ہوا۔ اس کے بعد سے اب تک بہت سارے مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ جن میں ”سراب در سراب ،خود رنگ اور شہر غزل“ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

بے تاب کو ان کے شعری مجموعے پر بہت سارے انعام و اکرام سے نوازا گیا ہے۔ بیتاب آجکل جموں و شعر و سخن کی محفلوں کی جان بنے ہوئے ہیں اور دن رات گئسوۓ ادب اور اردو کو سنوارنے میں مصروف ہیں۔ خدا ان کی عمر دراز کرے۔

سوال: درج ذیل اشعار کی تشریح کیجئے۔

نہ دے اونچائی میرے قد کی بے شک
مری ہر شاخ کو لیکن ثمر دے
اپنے قدموں کے نقش غائب ہیں
بے نشانی سی بے نشانی ہے

(1) یہ شعر بھی ان دو اشعار کی طرح ہے کہ شاعر خدا سے اچھی ہدایت مانگ رہا ہے اور کہہ رہے ہیں کہ اے خدا مجھے میرے قد کو اتنا اونچائی بھی نہ دے کہ تجھ سے منحرف ہو کرغرور میں مبتلا ہو جاؤ بلکہ جتنا بھی تو نے دیا ہے اس میں تمہارا احسان اور شکر بجا لاتا ہوں۔

(2)۔ اس سے پہلے شاعری کہہ رہے ہیں کہ تمام چیزیں فانی ہے کوئی کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو اور عزیز کیوں نہ ہو اس کو بلانے میں چند نہیں لگتے ہیں اسی لیے اے میرے خدا کچھ ایسا کر جو قیامت تک باقی رہے اور جو مٹانے سے بھی نہ مٹ سکے۔

سوال: پرتپال سنگھ کی غزلوں کا مطلع اور مقطع لکھیے۔

مطلع

نہ دے پختہ عمارت اک کھنڑردے
میں بے گھر ہوں مجھے بھی کوئی گھردے
ریت ہے اور بیکرانی ہے
اور صحرا کی کیا کہانی ہے

مقطع

نظر ہے منتظر کس کس ہے بیتاب
صدف مجھ کو کیا ہے تو گہر دے
ہمیں کچھ رک گئے ہیں بیتاب
ورنہ چاروں طرف روانی ہے۔

سوال: اوپر کی مثال میں لفظ مکان کے ساتھ لا کا لاحقہ ملا کر ایک نیا لفظ لامکان بن گیا ہے۔ جس کے معنی عالم قدس ہیں ۔ اب ایسے ہی پانچ اور الفاظ بنائے جن میں ایک لاکا لاحقہ استعمال کیا گیا ہو۔

  • جواب: لا محال۔ مشکل کے بغیر،
  • لا مثال۔ بے مثال جس کی نظیر نہ ہو
  • لا تعلق۔ غیر، غیر وابستہ
  • لاوارث جس کا کوئی رشتہ دار نہ ہو
  • لا علاج جس کا علاج نہیں کیا جاسکتا