نذیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی،خلاصہ، سوالات و جوابات

0

خاکہ کی تعریف

خاکہ نگاری اردو ادب کی ایک دلکش صنف ہے۔ یہ صنف اردو میں انگریزی سے آئی ہے۔ انگریزی میں اس کو اسکرپٹ کہتے ہیں۔ادبی اصطلاح میں خاکہ سے مراد وہ تحریر ہے جس میں نہایت مختصر طور پر اشارے اور کنایے کے ذریعے کسی شخصیت کا نقشہ عادت و اطوار اور سیرت و کردار کے منفرد اور نمایاں خصوصیات بغیر مبالغہ کے اس طرح پیش کی جائے کہ اس کی مکمل تصویرآنکھوں کے کے سامنے آجائے اور اس کے خیالات اور افکار بھی ابھر کر سامنے آ جائیں۔

خاکہ نگاری میں سوانح عمری کی طرح پوری زندگی کے حالات واقعات سلسلہ وار بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ اس کی بنیادی شرط اختصار ہے۔

اردو میں خاکہ نگاری کے اولین نقوش ہمیں اردو شعرا کے تذکروں میں نظر آتے ہیں۔ لیکن باقاعدہ طور پر اس کا آغاز اردو میں مرزا فرحت اللہ بیگ نے کیا۔ انہوں نے مولوی نذیر احمد کا خاکہ ”نذیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی‌“ لکھ کر خاکہ نگاری کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بعد بہت اہم خاکہ نگار گزرے ہیں۔ جن میں مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی، سعادت حسن منٹو ،عصمت چغتائی ،مشتاق احمد یوسفی بہت مشہور ہیں۔

سوال نمبر 1: مرزا فرحت اللہ بیگ کے حالات زندگی مختصراً بیان کریں۔

مرزا فرحت اللہ بیگ 1883ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم و تربیت دہلی میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام حشمت بیگ تھا۔ انہوں نے مشرقی علوم کے ساتھ انگریزی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ تعلیم سے فراغت پانے کے بعد مختلف عہدوں پر فائز ہوئے۔ ان کے مضامین ”مضامین فرحت“ کے نام سے چھپے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کا انتقال 1846ء میں حیدرآباد میں ہوا۔

مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح نگاری کے اعتبار سے ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ آپ نے تحقیق کا کام بھی کیا ہے۔ دیوان یقین پر ایک بہترین تحقیقی اور تفصیلی مقدمہ بھی انہوں نے لکھا ہے۔ ”دہلی کا یادگار مشاعرہ“ ، ”نذیر احمد کی کہانی“ اور ”ایک وصیت کی تعمیل“ ان کے اتنے دلچسپ مضامین ہیں کہ پڑھنے والے کو کسی بھی قسم کی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ مرزا صاحب کی طرز تحریر نہایت سادہ مگر حد درجہ دلکش اور پرلطف ہوتی تھی۔ آپ کا انداز بیان نہایت شگفتہ اور رنگین تھا۔

سوال نمبر 2: نذیر احمد کی شخصیت کے دلچسپ پہلو کو اپنے الفاظ میں لکھیے۔

جواب: نذیر احمد کا حلیہ عجیب و غریب تھا۔ پیٹ بہت باہر نکلا ہوا سر پر بہت کم بال تھے ،جسم جیسے سوکھے چاول کی بوری، بڑا دھانہ ، چھوٹی آنکھیں جو اندر دھنسی ہوئی تھیں ،ناک چھوٹی ، نتھنےبڑی، داڑھی چھدری ہوئی تھی ، جبڑے بڑے، اپنی محنت پر فخر کرتے تھے۔ مزاحیہ باتیں کرتے تھے مگر اپنی عمر کا خیال ضرور رکھتے تھے۔

سوال نمبر 3: نذیر احمد نے بچپن میں کن واقعات کو لطف لے کر بیان کیا ہے؟ بتائیے۔

جواب: مولوی نذیر احمد نے بچپن میں غریبی کے دن دیکھے۔ علم حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا پھرتے پھرتے ایک مسجد میں آ کر بیٹھ گئے۔ وہاں ایک مولوی صاحب بچوں کو پڑھاتے تھے۔ نذیر صاحب کو بھی پڑھانے لگے اور وہاں دو چار لڑکے تھے وہ وہاں کھانا بھی کھاتے تھے اور قیام بھی کرتے تھے۔ لیکن نذیر صاحب کو ہر روز گھر گھر جانا پڑتا اور روٹی سمیٹ کر لانی پڑتی تھی۔

ایک امیر آدمی کے گھر میں بڑی تکلیف اٹھانی پڑی۔ اس امیر آدمی کی بیٹی نذیر احمد سے مصالحہ پسواتی تھی۔ مولوی صاحب کے پاس نذیراحمد شکایت لے کر جاتے تھے لیکن مولوی صاحب اس کو ٹال دیتے تھے لیکن نذیر احمد کو اپنی قابلیت کی وجہ سے دلی کالج میں داخل ہوا اور وہی لڑکی جو ان سے مصالحہ پسواتی تھی ان کی اہلیہ بن گئی۔

سوال نمبر 4: نذیر احمد کے ساتھ پڑھنے والے کون کون سے ادیب شامل تھے؟

جواب: نذیر احمد کے ساتھ پڑھنے والے ادیبوں میں سرسید احمد خان ،منشی ذکاء اللہ اور پیارےلال شامل تھے۔

سوال نمبر 5: نذیر احمد نے آجکل کی تعلیم کی کون کون سی خامیاں بتائیں ہیں؟

جواب: نذیر احمد نے کہا ہے کہ آجکل پڑھاتے نہیں بلکہ پڑھائی کو لاد دیتے ہیں۔ آج جو پڑھتے ہیں کل اس کو بھول جاتے ہیں۔ ایک ہی کلاس میں بہت سارے مضامین پڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ ہمارے زمانے میں ایک مضمون پڑھایا جاتا تھا مگر اس میں کامل کر دیا جاتا تھا۔

سوال نمبر 6: اس سبق میں جہاں مزاحیہ انداز اختیار کیا گیا ہے اس کی نشاندہی کیجئے۔

جواب: اس سبق میں مولوی صاحب کا حلیہ بیان کرتے ہوئے پوری طرح مزاحیہ انداز اختیار کیا گیا ہے۔ مثلاً توند اس قدر بڑھ گئی تھی کہ کمر میں ازار بند باندھنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس سے تکلیف ہوتی تھی۔ نذیر احمد نے کہا کہ تم سمجھے بھی یہ لڑکی کون تھی میاں لڑکی وہی تھی جو بعد میں ہماری بیگم صاحبہ ہوئی۔

سوال نمبر 7: سبق کا خلاصہ تحریر کیجئے۔

جواب: مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنے اس خاکے میں اپنے استاد مولوی نذیر احمد کے بارے میں لکھا ہے۔ انہوں نے اپنے استاد محترم کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور ان کے حلیے یعنی شکل اور صورت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مولوی صاحب کا رنگ سانولا گندمی تھا اورقد چھوٹا تھا۔ اپنے قد کی مناسبت سے ترکی ٹوپی پہنتے تھے۔گرمیوں کے موسم میں تہبند پہننے کے عادی تھے۔سر بڑا تھا لیکن اس پر بال بہت کم تھے۔ آنکھیں چھوٹی تھیں، توند نکلی ہوئی تھی اور آواز بہت بھاری اور داڑھی چھدڑی ہوئی تھی۔

مولوی نذیر احمد کا اپنے بارے میں کہنا ہے کہ وہ بہت غریب تھے اور بچپن میں پھرتے پھراتے پنجابیوں کی مسجد میں گئے اور وہاں مولوی صاحب سے قرآن مجید کا ادب پڑھا۔ چار برس میں انہوں نے معلقات یعنی قصیدے پڑھے۔ ان کا کہنا ہے کہ پڑھنے کے علاوہ میرا کام گھرگھر روٹی سمیٹنا تھا اور اس کے علاوہ وہ مصالحہ بھی پیسنتے تھے۔

مولوی صاحب کے مطابق ایک دن جب وہ دہلی کالج گئے تو وہاں صدرالدین صاحب اور انگریزی پرنسپل مدرسہ کے بچوں کا امتحان لے رہے تھے۔ کافی لوگ جمع تھے جب تلک کسی کام سے باہر جانے لگے تو چپراسی نے بھیڑ کو ہٹانے کی کوشش کی۔ اسی عرصے میں میں گر گیا۔ پرنسپل صاحب نے مجھے دلاسہ دینے کے لئے مجھے سہارا دیا اور پوچھا، کیا پڑھتے ہو؟ اس پر میں نے جواب دیا میں معلقات پڑھتا ہوں۔ تو انہوں نے مجھے مفتی صاحب کے سامنے پیش کیا۔ مفتی صاحب نے چند سوالات پوچھے اور میں نے تمام سوالات کا درست جواب دیا اس طرح میرا داخلہ دہلی کالج میں ہوا۔

مولوی صاحب خود بھی فرحت اللہ بیگ کے سامنے اپنی ذہانت کا اعتراف کرتے ہیں۔ ان کو کلام پاک کا ترجمہ کرنے پر بہت زیادہ ناز تھا۔ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں انہیں کافی محنت مشقت کرنی پڑی۔ مصنف لکھتے ہیں کہ انہیں مولوی نذیر احمد نے کہیں کتابیں پڑھنے کے لیے مفت میں بھی دیں اور جب بعد میں مولوی نذیر صاحب کا انتقال ہوا تو میں جب بھی دہلی آتا تھا تو ان کے گھر ضرور جاتا تھا اور ان کے گھر کو دیکھ کر یہ خیال آتا کہ یہ دنیا فانی ہے یہاں لوگ آتے ہیں اور چند دن رہ کر چلے جاتے ہیں۔ صرف خدا ہی کی ذات باقی رہنے والی ہے۔

سوال نمبر 7: اس سبق میں جو محاورے استعمال ہوئے ہیں انہیں تلاش کر کے لکھیے۔

محاورے معانی
ٹانگ لینا پیچھے پڑھنا
بحث کرنا کسی بات پر تکرار کرنا
ہاتھ پکڑنا مدد کرنا
ہاتھ روکنا باز رہنا
گٹے پڑنا ہاتھ یا پاؤں پر نشان لگنا
حجت کرنا دلیل کرنا ، بحثکرنا