دیوان مرحوم کی یاد میں، سوالات و جوابات

0

سوال نمبر 1: شمیم احمد شمیم کے حالات زندگی اور ادبی خدمات مختصراً تحریر کریں۔

شمیم احمد شمیم کے حالات زندگی اور ادبی خدمات :

شمیم احمد شمیم 1934 میں شوپیاں کے ناسنور گاؤں میں پیدا ہوئے۔میٹرک پاس کرنے کے بعد سری نگر کے ایس پی کالج میں داخلہ لیا۔ بی اے کا امتحان پاس کرتے ہی محکمہ اطلاعات میں ملازمت مل گئی۔ اس محکمہ میں ان کو ماہنامہ” تعمیر” کی ادارت سونپی گئی۔ یہ ایک صحافی کی ہنگامہ خیز زندگی کا آغاز تھا۔

شمیم احمد نے اپنی اس ملازمت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ علی گڑھ چلے آئے اور یہاں سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد سری نگر کی عدالت میں وکالت کرنے لگے۔ 1964میں ہفت روزہ “آئینہ “نکالنا شروع کیا۔ اس کے علاوہ شمیم احمد شمیم ملک کے پارلیمنٹ کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔

ان کا مستقل کالم “چراغ بیگ ” ایک ادب پارہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے الفاظ کا انتخاب، جملوں کی ترتیب، عبارت کی بندش اور مضامین کی ترتیب مل کر ان کی تحریر کو واضح بناتی تھے۔ ان کا انتقال یکم مئی 1980 میں ہوا، اس وقت ان کی عمر پنتالیس سال کی تھی۔

سوالات کے جوابات:

سوال: مضمون نگار کس تصور سے کانپتا ہے؟

جواب: مضمون نگار اس تصور سے کانپتا ہے کہ اس کے مرجانے کے بعد اس کے عزیز و اقارب ،بیوی،بچے اور دوست و احباب اسے اسی طرح بھلادیں گے جس طرح اس نے اپنے باپ کو،اپنے بھائی اور اپنے عزیز ترین دوست عبد القادر دیوان کو بھی بھلا دیا ہے۔

سوال: دیوان صاحب کی شخصیت کے بارے میں مختصر نوٹ لکھیے۔

جواب: عبدالقادر دیوان شوپیاں سے ایک یا ڈیڑھ میل کے فاصلے پر واقع گاؤں چوگام میں ایک ایسے دقیانوسی رئیسوں کے خاندان میں پیدا ہوئے جہاں لڑکیوں کی تعلیم کو وقت کا ضائع کرنا اور برا سمجھا جاتا تھا۔ دیوان صاحب کو بچپن ہی سے پڑھنے کا بہت شوق تھا اس لئے انہوں نے بزرگوں کی نظریں بچا کر اپنا پیٹ اور اپنے باپ کی جیب کاٹ کر کتابیں خرید لیں اور انھیں پڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا، دوکان پر چائے کپڑا اور نمک بھیجتے بھیجتے انہوں نے پہلے میٹرک اور پھر ادیب فاضل کا امتحان پاس کر دیا۔ وہ کوئی سیاسی لیڈر ، مذہبی رہنما ، اہل قلم یا صاحب تصنیف بزرگ نہیں تھے البتہ وہ اتنا عمدہ مذاق رکھتے تھے کہ اردو کے بڑے پروفیسر ،شاعر ،نقاد اور محقق ان کے سامنے ہیچ نظر آتے تھے۔ دیوان صاحب صادق القول اور ایماندار بزرگ تھے۔ وہ سخت قسم کے مذہبی آدمی تھے لیکن ہم کاروں کے ساتھ بہت گل مل جاتے تھے ان کی زبان اور ان کے قلم میں وہ جادو تھا کہ بڑے بڑے  ادیبوں اورمقرروں کے بیان میں نظر نہیں آتا۔

سوال: تشبیہ کسے کہتے ہیں ؟

جواب:   تشبیہ عربی زبان کا لفظ ہے لغت کے اعتبار سے لفظ تشبیہ کے معنی ہیں مشابہت دینا، مانند ٹھہرانا یا تمثیل۔لفظ تشبیہ واحد ہے۔ جس کا جمع  تشبیہات ہے۔ جب کسی ایک چیز کو شکل و صورت، بناوٹ اور دیگر خصوصیات کی بنا پر کسی دوسری چیز کی مانند ٹھہرایا جائے تو اسے تشبیہ کہتے ہیں۔ شعر میں ایک مثال دیکھیے:

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

گرامر

  • مصدر اصلی: وہ کلمے جنھیں خاص مصدری معنوں کے لئے وضع کیا گیا ہو، مصدر اصلی کہلاتے ہیں۔ مثلاً کھانا، پڑھنا ،رونا۔
  • مصدر جعلی: دوسری زبان کے الفاظ کے ساتھ مصدر یا مصدر کی علامات جوڑ کر جو مصادر بنائے جاتے ہیں ان کو مصدر جعلی کہتے ہیں۔ مثلاً زور لگانا ،شور مچانا ،ورزش کرنا۔ایسے مصدروں کو “مرکب مصدر” بھی کہتے ہیں ۔بعض اوقات اسموں میں تبدیلی کرکے بھی مصدر بنائے جاتے ہیں۔ مثلاً: گرم سے گرمانا ،دفن سے دفنانا ،خرید سے خریدنا۔

سوال نمبر 2: مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ مصدر جوڑ کر مصادر جعلی بنائیے۔

مصدر مصادر جعلی
کوشش کوشش کرنا
تلاش تلاش کرنا
تقریر تقریر کرنا
تعزیت تعزیت کرنا
مبارک مبارک باد دینا
تعمیر تعمیر کرنا
تشریح تشریف لانا
ذلیل ذلیل کرنا

سوال نمبر 3: درج ذیل اسموں میں تبدیلی کر کے مصادر جعلی بنائیے۔

اسم مصادر جعلی
شرم شرمانہ
فرمان فرمانا
سوچ سوچنا
کھیل کھیلنا
لڑائی لڑانا
لپیٹ لپیٹنا
موڑ موڑنا

سوال نمبر 4: ” بے کار” میں “بے” ” سابقہ “ہے اور “کار”،”اسم ” مندرجہ ذیل اسموں کے ساتھ “بے” سابقہ جوڑ کر الفاظ بنائیے۔

اسم الفاظ
رحم بے رحم
وقت بے وقت
مروت بے مروت
ادب بے ادب
بنیاد بے بنیاد
ہوش بے ہوش
قرار بے قرار

سوال نمبر 5: نیچے دیے گئے اسموں میں سے مذکر کے مونث اور مونث کے مذکر لکھیے۔

مذکر مونث
بیوی شوہر
مرحوم مرحومہ
دادا دادی
بھائی بہن
والد والدہ
صاحب صاحبہ
نائی نائین
دھوبی دھوبن