ایک شب غم وہ بھی تھی جس میں جی بھر آئے تو اشک بہائیں

0

ایک شب غم وہ بھی تھی جس میں جی بھر آئے تو اشک بہائیں
ایک شب غم یہ بھی ہے جس میں اے دل رو رو کے سو جائیں

  • جانے والا گر جائے گا کاش یہ پہلے سوچا ھوتا
  • ہم تو منتظر اس کے تھے بس کب ملنے کی گڑیاں آئیں
  • الگ الگ بہتی رہتی ہے ہر انسان کی جیون دھارا
  • دیکھ ملیں کب آج کے بچھڑے لے لون بڑھ کے تیری بلائیں
  • سنتے ہیں کچھ رو لینے سے جی ہلکا ہو جاتا ہے
  • شاید تھوڑی دیر برس کر چھٹ جائیں کچھ غم کی گھٹائیں
  • اپنے دل سے غافل رہنا اہل عشق کا کام نہیں
  • حسن بھی ہے جس کی پرچھائیاں آج وہ من کی جوت لگائیں
  • سب کو اپنے اپنے دکھ ہیں سب کو اپنی اپنی پڑی ہے
  • اے دل غمگین تیری کہانی کون سنے گا کس کو سنائیں
  • جسم نازنین میں سرتا پا نرم لویں لہرائی ہوئی سی
  • تیرے آتے ہیں بزم ناز میں جیسے کئی شمعیں جل جائیں
  • ہاں ہاں تجھ کو دیکھ رہا ہوں کیا جلوہ ہے کیا پردہ ہے
  • دل دے نظارے کی گواہی اور یہ آنکھیں قسم کھائیں
  • لفظوں میں چہرے نظر آئیں گے چشم بینا کی ہے شرط
  • کئی زاویوں سے خلقت کو شعر مرے آئینہ دکھائیں
  • مجھ کو گناہ و ثواب سے مطلب؟ لیکن عشق میں اکثر آئے
  • وہ لمحے خود میری ہستی جیسے مجھے دیتی ہو دعائیں
  • چھوڑ و وفا و جفا کی بحثیں اپنے کو پہچان اے عشق
  • غور سے دیکھ تو سب دھوکا ہے کیسی وفائیں کیسی جفائیں
  • حسن اک بے بیندھا ہوا موتی یا اک بے سونگھا ہوا پھول
  • ہوش فرشتوں کے بھی اڑادیں تیری یہ دو شیزہ ادائیں
  • باتیں اس کی یاد آتی ہے لیکن ہم پر یہ نہیں کھلتا
  • کن باتوں پر اشک بہائیں کن باتوں سے جی بہلائیں
  • ساقی اپنا غم خانہ بھی مئے خانہ بن جاتا ہے
  • مست مئے غم ہو کر جب ہم آنکھوں کے ساغر چھلکائیں
  • اہل مسافت ایک رات کا یہ بھی ساتھ غنیمت ہے
  • کوچ کرو تو صدا دے دینا ہم نہ کہیں سوتے رہ جائیں
  • ہوش میں کیسے رہ سکتا ہوں آخر شاعر فطرت ہوں
  • صبح کے ست رنگے جھرمٹ سے جب وہ انگلیاں مجھے بلائیں
  • ایک غزال رم خور دہ کا منہ پھیرے ایسے میں گزرنا
  • جب مہکی ہوئی ٹھنڈی ہوائیں دن ڈوبے آنکھیں جھپکائیں
  • دیں گے ثبوت عالی ظرفی ہم میکش سر میخانہ
  • ساقی چشم سیہ کی باتیں زہر بھی ہوں تو ہم پی جائیں
  • موزوں کرکے سستے جذبے منڈی بیچ رہے ہیں
  • ہم بھی خریدیں جو یہ سخنور اک دن ایسی غزل کہہ لائیں
  • رات چلی ہے جوگن بن کر بال سنوارے لٹ چھٹکائے
  • چھپے فراقؔ گگن پر تارے، دیپ بجھے ہم بھی سو جائیں