Rajinder Singh Bedi In Urdu | راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری

0

نام راجندر سنگھ بیدی تھا۔راجندر سنگھ بیدی انیس سو پندرہ 1915ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔بیدی کے والد کا نام ہیرا سنگھ بیدی تھا اور والدہ کا نام سیودئی تھا۔ انہوں نے باقاعدہ اسکول اور کالج میں بھی تعلیم حاصل کی مگر بہت آگے نہ بڑھ سکے۔

پڑھنے اور کہانیاں لکھنے کا شوق طالب علمی کے زمانے میں ہی پیدا ہوگیا تھا۔ راجندر سنگھ بیدی نے طالب علمی کے زمانے میں ہی 1932ء میں محسن لاہوری کے نام سے انگریزی، اردو اور پنجابی میں نظمیں اور کہانیاں لکھ کر اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ والدہ کا انتقال ہوجانے کے سبب تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور انہیں ڈاکخانہ اور ریڈیو میں ملازمت کرنی پڑی۔

  اسی دوران ملک تقسیم ہوگیا اور بیدی  بڑی تکلیف جھیل کر   دہلی پہنچے اور پھر ریڈیو اسٹیشن پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک نہ چل سکا اور پھر وہ ممبئی چلے گئے اور وہاں فلمی دنیا سے رشتہ قائم کرلیا اور فلمیں بھی بنائیں۔ بیدی کا انتقال 1984ء  میں ممبئی میں ہوا۔

راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری

راجندر سنگھ بیدی ہمارے دور کے ایک ممتاز افسانہ نگار تھے۔ ان کا اصل موضوع گھریلو زندگی کی چھوٹی چھوٹی مسرتیں ہیں۔ رمزیت اور تہہ داری  بیدی کے فن کی ایک اہم خصوصیت ہے۔راجندر سنگھ بیدی ترقی پسند تحریک سے بھی متاثر رہے اور اپنے افسانوں سے انہوں نے غریب اور مظلوم طبقے کی حمایت بھی کی لیکن اس تحریک کو انہوں نے کبھی اپنے پاؤں کی زنجیر نہیں بننے دیا۔ اس لیے ان کا فن کبھی پروپگنڈا نہیں بن سکا۔

زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بیدی اپنے افسانوں کا موضوع بناتے ہیں اور پھر ان کے گرد فنکارانہ انداز سے کہانی کا تانا بانا بنتے ہیں۔بیدی کی کہانیوں کا موضوع حقیقی زندگی کے انسان ہیں جن کے دلوں میں طرح طرح کی آرزوئیں جنم لیتی ہیں مگر پوری نہیں ہوپاتیں۔ نفسیات کے علم سے وہ بہت کام لیتے ہیں اور اپنے کرداروں کے ذہن میں اتر جاتے ہیں۔

حقیقت نگاری بیدی کے افسانوں کی ایک بہت ہی بڑی خصوصیت ہے۔ چیخوف کا فن ان کو عزیز ہے کہ اس کے یہاں افسانہ کہنے کی کوشش کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ وہ زندگی کی باتیں کرتا ہے اور زندگی کا ایک ٹکڑا ہی آپ کے سامنے رکھتا ہے کہ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ بیدی انتقادی حقیقت نگاری کے زیادہ قریب ہیں۔

ان کا مزاج علامت پسند ہے اور علامتوں کے سہارے  وہ اپنے افسانوں کی تعمیر کرتے ہیں۔ہماری گھریلو زندگی میں جو چھوٹے واقعات پیش آتے ہیں اور جو چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہمیں میسر آتی ہیں اور جن غموں سے ہمیں سابقہ پڑتا ہے بیدی کی نظر ان کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے اور اپنے افسانوں میں سمو لیتی ہے۔

بیدی کے اردو افسانے روس کے عظیم افسانہ نگار چیخوف کی یاد دلاتے ہیں۔روسی افسانہ نگار کا جتنا گہرا اثر بیدی کے ہاں ہے اور کسی کے یہاں نہیں  ہے۔بیدی کے کردار متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔بیدی کی حقیقت نگاری کے سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ پنجاب کی زندگی کی جتنی سچی اچھی اور بھرپور تصویرکشی انہوں نے کی ہے اور کسی نے نہیں کی ہے۔ان کے تمام افسانوں سے  یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ وہ صرف انسانیت کا احترام کرتے ہیں۔

راجندر سنگھ بیدی کی ناول نگاری

راجندر سنگھ بیدی اصل افسانہ نگار تھے اور ان کا ذکر افسانہ نگاری کے باب میں آئے گا مگر انہوں نے ایک ناول بھی لکھا ہے اور وہ بھی مختصر جس کا نام” ایک چادر میلی سی” ہے۔ایک چادر میلی سی میں راجندر سنگھ بیدی کا انداز بے حد اشاراتی  ہے۔ رمز نگاری یوں بھی بیدی کی خصوصیت ہے لیکن اس ناول میں وہ کچھ اور بھی نکھری ہوئی نظر آتی ہے۔

اس ناول کی کہانی بہت چھوٹی سی اور سیدھی سادی ہے۔ تلوکا جس کا پیشہ ایک یکا  چلانا اور چوہدری مہربان داس کے لیے بھولی بھٹکی ہوئی عورتوں کو بٹور کر لانا تھا۔ایک روز جاترن کے بھائی کے ہاتھوں اس کا قتل ہوجاتا ہے اور پھر اس کی بیوی جس کا نام رانو تھا اس کی شادی تلوکا کے بھائی منگل سے کردی جاتی ہے۔اس کے علاوہ گھنشام داس ،حضور سنگھ ، پورن دائی سرپنچ گیان سنگھہ، چندا ،چنوں وغیرہ اس ناول کے کردار ہیں۔سلامتی بھی ایک کردار ہے جس سے منگل پیار کرتا تھا۔

“ایک چادر میلی سی” کے بارے میں اہم معلومات

  • ناول ایک چادر میلی سی رسالہ “نقوش” میں دو قسطوں میں انیس سو ساٹھ (1960) میں شائع ہوا  تھا اور کتابی صورت میں مکتبہ جامعہ دہلی سے انیس سو باسٹھ (1962) میں شائع ہوا تھا۔
  • ناول ایک چادر میلی سی پر شام لال نے ٹائمز آف انڈیا میں تبصرہ کیا تھا جس کا ترجمہ  خیر النساء بیگم نے کیا تھا۔
  • ایک چادر میلی سی پاکستان میں “مٹھی بھر چاول” کے نام سے شائع ہوا۔
  • ناول ایک چادر میلی سی کا انداز اشارتی ہے اور اس میں رمزنگاری سے کام لیا گیا ہے۔

راجندر سنگھ بیدی کے افسانوی مجموعے

  • دانہ و دوام ۔راجندر سنگھ بیدی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جس میں 14 افسانے ہیں اس کا انتساب بیدی نے اپنے ماں باپ کے نام سے کیا ہے۔بیدی کی کلیات میں شامل افسانوں میں پہلا افسانہ “بھولا” ہے۔ جو اسی افسانوی مجموعہ میں شامل ہے  اور اس افسانوی مجموعے کا پہلا افسانہ ہے۔1936 میں شائع ہوا۔
  • گرہن ۔ بیدی کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ بیدی نے اسے خولی کے نام منسوب کیا ہے۔  اس میں چودہ افسانے ہیں۔1942ء میں شائع ہوا۔
  • کوکھ جلی ۔اس افسانوی مجموعے میں تیرہ افسانے ہیں۔1949ء میں شائع ہوا۔
  • اپنے دکھ مجھے دے دو۔ اس افسانوی مجموعے میں دس افسانے ہیں۔  بیدی نے یہ مجموعہ آل احمد سرور کے نام منسوب کیا ہے۔1965ء میں شائع ہوا۔
  • ہاتھ ہمارے قلم ہوئے۔ اس افسانوی مجموعے میں دس افسانے ہیں ۔1974ء میں شائع ہوا۔
  • مکتی بودھ۔ مکتی بودھ کو بیدی نے باقر مہدی کے نام منسوب کیا ہے۔ مکتی بودھ میں پانچ افسانے اور سات مضامین اور خاکے ہیں۔

راجندر سنگھ بیدی کے ڈراموں کے مجموعے

  • “بے جان چیزیں” بیدی کے ڈراموں کا پہلا مجموعہ ہے جس میں چھ ڈرامےہیں۔”کار کی شادی۔ ایک عورت کی نہ۔ روح انسانی۔  اب تو گھبرا کے ۔بے جان چیزیں۔ خواجہ سرا” یہ مجموعہ 1943 میں شائع ہوا۔

سات کھیل۔ بیدی کے ڈراموں کا دوسرا مجموعہ ہے جس میں سات ڈرامے ہیں۔”خواجہ سرا۔ چانکیا۔  تلچھٹ ۔نقل مکانی۔ آج۔ درخشندہ۔  پاؤں کی موچ”۔