مثنوی گلزار نسیم کا خلاصہ

0

مثنوی “گلزار نسیم” دبستان لکھنو کا ایک اہم کارنامہ ہے اور میر حسن کی مثنوی “سحرالبیان” سے اکثر اس کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ حالی نے اس پر اظہار افسوس کیا ہے کہ مثنوی جو ایک نہایت کار آمد صنف ہے اردو میں اس کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں کی گئی۔ سحرالبیان اور گلزار نسیم سے یہ کمی کسی حد تک ضرور پوری ہوئی ہے۔

مثنوی “گلزار نسیم” پنڈت دیا شنکر نسیم کی لکھی ہوئی ایک عشقیہ مثنوی ہے جو “قصۂ گل بکاؤلی” کے نام سے مشہور ہے۔ اس مثنوی کا اصل قصہ عزت اللہ بنگالی نے 1722ء میں “قصۂ گل بکاؤلی” کے نام سے فارسی زبان میں تخلیق کیا تھا۔جس کو 1803ء میں منشی نہال چند لاہوری نے گلگرسٹ کی فرمائش پر “مذہب عشق” کے نام سے اردو نثر میں منتقل کیا اور پھر تیسری مرتبہ اس قصے کو پنڈت دیاشنکر نسیم نے اردو نظم کا لباس پہنا کر مثنوی “گلزار نسیم” کے روپ میں 1839ء میں پیش کیا۔ اس مثنوی کو پہلی بار رشید حسن خان نے مرتب کیا۔

کہا جاتا ہے کہ نسیم نے جب یہ مثنوی پہلی بار لکھی تو بہت طویل تھی۔ اصلاح کے لیے استاد کی خدمت میں پیش کی تو انہوں نے کہا کہ اسے صرف تم اور میں ہی پڑھیں گے۔ تم اس لیے کہ اس کے مصنف ہو اور میں اس لئے کہ تمہارا استاد ہوں۔ لیکن باقی لوگوں کے پاس اتنی طویل مثنوی پڑھنے کا وقت کہاں۔ استاد کی یہ بات نسیم کے دل میں اتر گئی اور انہوں نے بڑی محنت سے اسے مختصر کر دیا۔ مختصر کرتے وقت بہت سی باتوں کو رمز و کنائے میں بیان کرنا پڑا جس نے اس کے حسن کو دوبالا کر دیا۔

اس مثنوی کی سب سے اہم خصوصیت رعایت لفظی کا کثرت سے استعمال ہے اور اس میں اختصار پایا جاتا ہے۔ مثنوی میں آورد کا انداز پایا جاتا ہے لیکن زبان کی برجستگی نے اسے آمد کے قریب کردیا ہے۔ رشید احمد صدیقی نے اس مثنوی کے بارے میں لکھا ہے کہ “شعر و شاعری کے جن پہلوؤں کے اعتبار سے لکھنؤ بد نام ہے گلزار نسیم نے انہیں پہلو سے لکھنؤ کا نام اونچا کیا ہے زبان کو شاعری اور شاعری کو زبان بنا دینا کوئی آسان کام نہیں” پروفیسر احتشام حسین نے مثنوی گلزار نسیم کو شاعرانہ اور فنکارانہ تخلیق کا معجزہ کہا ہے۔

مثنوی گلزار نسیم کا خلاصہ:

مشرق میں ایک بلند مرتبہ بادشاہ رہتا تھا جس کا نام زین الملوک تھا۔ اس کے ہاں چار بیٹے تھے اور ایک پانچواں بیٹا پیدا ہوا جو نہایت خوبصورت اور ذہین تھا۔ نجومیوں نے بتایا کہ اس کو دیکھنے سے بادشاہ کی آنکھوں سے روشنی چلی جائے گی اس لئے اسے پوشیدہ اور بادشاہ سے الگ رکھ کر دائیوں نے پالا اور اس کا نام تاج الملوک رکھا۔

ایک دن بادشاہ شکار سے واپس آ رہا تھا اچانک اس کی نظر تاج الملوک کے چہرے پر پڑی تو بادشاہ کی آنکھوں سے روشنی چلی گئی۔ بادشاہ نے اسے گھر سے نکال دیا، بے شمار علاج کیے لیکن بادشاہ کی آنکھوں میں روشنی نہیں آئی۔ آخر کار آنکھوں کا بہت پرانا اور تجربہ کار معالج بلایا گیا اس نے بادشاہ کی آنکھیں دیکھ کر بتایا کہ باغ بکاؤلی میں ایک پھول ہے اس کا زیرہ لگانے سے بادشاہ کی آنکھوں میں روشنی آ سکتی ہے۔

چنانچہ گل بکاولی کی تلاش میں چاروں شہزادے نکل پڑے۔ ان کا لشکر ایک میدان سے گزرا جہاں تاج الملوک بھی تھا۔ اس نے پوچھا کہ یہ لشکر کدھر جا رہا ہے؟ ایک سپاہی نے جواب دیا کہ زین الملوک بادشاہ اپنے بیٹے کو دیکھنے سے اندھا ہو گیا ہے اس کے علاج کے لیے ارم سے گل بکاولی لانے کے لیے لشکر جارہا ہے۔ ایک سپاہی کے ساتھ یہ شہزادہ بھی چل پڑا۔ راستے میں فردوس نام کا ایک مقام تھا جہاں دلبر نام کی ایک طوائف رہتی تھی وہ جس کو مالدار دیکھتی تھی اسے اپنے اندر بلاتی تھی اس کے ساتھ شطرنج کھیلتی تھی اور اپنی خوبی سے سب کچھ لوٹ کر اسے قیدی بنا لیتی تھی۔ یہ چاروں شہزادے بھی اس کے پاس پھنسے اور سب کچھ ہار کر اس کے قیدی بن گئے۔

تاج الملوک خبر لینے کے لئے پھرتا ہوا وہاں پہنچا ایک دائیہ اندر سے باہر آئی جس کا لڑکا گم ہو چکا تھا شہزادے کو اس کا ہمشکل پا کر وہ اسے اندر لے گئی۔ اس سے شہزادے نے اپنے بھائیوں کا حال سنا تو اس نے دائیہ سے دریافت کیا کہ وہ کون ہے جو سب کو جوئے میں شکست دے دیتی ہے؟ دائیہ نے بتایا کہ دلبر نام کی ایک طوائف ہے جو جوا کھیلنے میں ماہر ہے وہ ہر ایک کو شکست دے دیتی ہے مال و اسباب لے لیتی ہے اور اپنا قیدی بنا لیتی ہے۔ یہ سن کر شہزادے کو غیرت آئی اس نے کچھ دن ادھر ادھر گھوم پھر کر ماہرین سے شطرنج کھیلنے میں مہارت حاصل کی پھر دلبر کے ساتھ شطرنج کا کھیل کھیلا اسے شکست دے کر قیدی آزاد کرائے۔ اس سے مال و اسباب لے لیا اور اسے اپنا غلام بنا لیا تب شہزادے نے کہا کہ میں ارم کو جا رہا ہوں واپسی پر تمہارے پاس آؤں گا تب تک تم سب یہاں ہی رہو۔ دلبر نے کہا ارم پریوں کا دیس ہے وہاں انسانوں کا جانا ممکن نہیں۔ انسان اور پری کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ شہزادے نے ہنس کر جواب دیا کہ کوشش سے ہر مشکل آسان ہو سکتی ہے۔

شہزادہ تاج الملوک وہاں سے چل پڑا ایک ایسے صحرا میں پہنچا جہاں باغِ ارم کی سرحدیں آکر ملتی تھیں۔ وہاں بادشاہ ارم کا ایک بہت بڑا پہرے دار تھا وہ کئی دن سے بھوکا تھا شہزادے کو دیکھ کر وہ خوش ہوا کہ خوراک حاصل ہو گئی۔ اتنے میں وہاں سے کئی اونٹ آئے جو شکر سے لدے ہوئے گزرے۔ دیو لپک کر وہاں سے سب کچھ لے آیا۔ شہزادے نے حلوے کی ایک کڑھائی پکا کر دیو کو کھلائی۔ وہ بہت خوش ہوا اور بولا کہ بتاؤ میں تمہیں اس کے بدلے میں کیا دوں؟

شہزادے نے پہلے دیو سے وعدہ لیا اور پھر بتایا کہ میں ارم میں جانا چاہتا ہوں۔ دیو نے کہا وہاں جانا مشکل ہے۔ اب تو نے وعدہ لے لیا ہے اور وعدہ خلافی کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ تب دیو نے اپنے ایک بھائی کو بلایا اور شہزادے کی خواہش بتائی اس نے اپنی بہن ہمالہ دیونی کے نام خط دیا اور کہا کہ یہ آدمی میرا خاص ہے اپنے اندھے باپ کی آنکھوں کے علاج کے لیے اسے بکاؤلی کا پھول درکار ہے۔ اس کے لانے میں اس کی مدد کریں۔ شہزادہ خط لے کر اس کے پاس گیا اس نے بڑی خاطر تواضع کی ترکیب بتائی اور مدد بھی کی۔ زمین کے اندر سے بکاؤلی کے باغ تک سرنگ نکالی۔ بکاؤلی کے باغ میں پہنچ کر اس نے بکاؤلی کا پھول توڑا اسے بڑی حفاظت کے ساتھ اپنے پاس رکھا۔ اس نے دیکھا تو بکاؤلی بالادری میں سوئی ہوئی تھی پہلے تو اس نے بکاؤلی کو جگانا چاہا مگر پھر مصلحت سمجھ کر چھوڑ دیا اور اپنی انگوٹھی اتار کر بکاؤلی کو پہنا دی اور اس کی انگوٹھی اتار کر خود پہن لی اور اسی سرنگ کے راستے سے حمالہ کے پاس واپس آ گیا۔ اس سے واپس جانے کی اجازت مانگی اس نے اسے دو بال دیے اور کہا کہ جب میری ضرورت پڑے گی ان کو جلانا میں مدد کے لیے آ جاؤں گی۔‌ حمالہ نے دیوؤں سے کہا وہ تخت لائیں انہوں نے تخت پر بیٹھا کر شہزادے کو دلبر کے باغ میں پہنچا دیا وہاں پہنچ کر شہزادے نے تمام لوگوں کو دلبر سے آزاد کرایا اور خود وہاں سے اپنے وطن کے لئے روانہ ہو گیا۔ وطن کے قریب پہنچ کر اس نے ایک اندھے فقیر کی آنکھوں پر پھول آزمایا اس کی آنکھوں میں روشنی آ گئی۔

چاروں شہزادے جب ناکام ہو گئے انھوں نے دھوکہ دینے کے لیے نقلی پھول لیا اور شیخیاں مارنے لگے۔ اس فقیر نے کہا اصلی پھول اس آدمی کے پاس ہے جس نے میری آنکھوں کو اچھا کیا۔ چاروں شہزادے اس کے پاس گئے اور پھول دکھا کر کہنے لگے کہ ہم اصلی پھول لائے ہیں۔ تاج ملوک نے انہیں جیب سے نکال کر اصلی پھول دکھایا انہوں نے موقع پاکر پھول چھین لیا اور گھر چلے گئے۔ بادشاہ زین الملوک کی آنکھوں میں پھول کا زیرا لگایا اس کی آنکھوں میں روشنی آ گئی۔ تمام لوگوں نے خوشیاں منائیں۔

ادھر بکاولی پری جب صبح نیند سے جاگی منہ دھونے کے لئے حوض پر گئی تو دیکھا کہ پھول غائب ہے۔ اس نے تمام خواصوں سے پوچھا مگر کوئی پتہ نہ چلا۔ بکاؤلی پھول کی تلاش میں ہر باغ، ہر جنگل اور ہر شہر میں گھومنے لگی مگر کہیں پھول کا سراغ نہ ملا۔ آخر کار وہ اس شہر میں پہنچی جہاں پھول سے بادشاہ کی آنکھوں میں روشنی آ نے پر ہر طرف چہل پہل تھی اور خوشیاں منائی جارہی تھیں۔ جادو سے وہ آدمی بنی اور اس طرف گئی جدھر سے بادشاہ کی سواری آرہی تھی۔ خوبصورتی کو دیکھ کر بادشاہ نے پوچھا کہ تو کون ہے؟ کدھر سے آیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرا نام فرح ہے میں فیروز کا بیٹا ہوں اور مسافر ہوں۔ اس کی خوبصورتی اور ذہانت کو دیکھ کر اسے بادشاہ اپنے ساتھ لے گیا اور اسے اپنا وزیر بنا لیا۔ ایک دن باتوں ہی باتوں میں تاج الملوک کا ذکر آیا تو اس نے سمجھ لیا کہ بس وہی ہے۔

جب چاروں بھائیوں نے تاج الملوک سے پھول چھین لیا تو وہ نہایت پریشان ہوا اس نے حمالہ دیونی کے دیے ہوئے بال آگ پر جلائے تو وہ فوراً حاضر ہو گئی۔ شہزادے نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ اس جنگل میں “گلشن نگاریں” آباد ہونا چاہیے اور محلات تعمیر ہونے چاہیے اور باغ لگنے چاہیے۔ حمالہ نے دیوؤں کو کہا کہ اس جنگل میں محلات تعمیر کرو باغ لگاؤ اور اسے آباد کرو۔ دیوؤں نے آدمی بن کر محلات تعمیر کیے، باغات لگائے اسے آباد کیا انہیں آتے جاتے جو کوئی بھی ملا اسے بھی لا کر یہاں آباد کیا۔ جو خبر سن کر اس مقام پر گیا وہاں اسے جنت سمجھ کر واپس نہیں آیا۔ جب بادشاہ نے اس مقام کی تعریف سنی تو اس نے اپنے چاروں بیٹوں، فرح ، وزیر اور امیروں کو ساتھ لیا اور “گلشن نگارین” میں آیا۔تاج الملوک نے ان کی بہت خدمت اور خاطر توازہ کی اس نے زین الملوک بادشاہ سے پوچھا کہ آپ کے کتنے فرزند ہیں بادشاہ نے جواب دیا کہ چار یہ ہیں ایک اور پیدا ہوا تھا لیکن اس کو دیکھنے سے میں اندھا ہو گیا۔ یہ چاروں بیٹے جاکر بکاؤلی کا پھول لائے تو میری آنکھوں میں نور آگیا۔ تاج الملوک نے بادشاہ سے پوچھا۔ کیا آپ میں سے کوئی اسے پہچانتا ہے؟ ان میں سے ایک اس کا دودھ شریک بھائی تھا اور چلاک بھی تھا وہ بولا کہ بادشاہ سلامت یہ وہی تاج الملوک ہے۔ یہ سن کر تاج الملوک نے باپ کے قدموں میں سر رکھ دیا۔ بادشاہ نے پاؤں سے سر اٹھایا اور بیٹے کو چھاتی سے لگا لیا۔

تاج الملوک نے بادشاہ سے کہا کہ آپ کو دو آدمی تنہائی میں ملنا چاہتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا انہیں بلا لیجیے اور یہاں جو غیر ہیں وہ اٹھ جائیں۔ سب وہاں سے اٹھ گے مگر یہ چاروں شہزادے بیٹھے رہے۔ تاج الملوک نے جاکر دلبر کو ساری باتیں پڑھائی اور اسے بلا کر لے آیا۔ دروازے پر آکر دلبر نے کہا کہ یہ چاروں قصوروار ہیں، جھوٹے ہیں، غلامی سے آزاد ہوئے ہیں۔ یہ سن کر چاروں شرمندہ ہوئے۔ دلبر نے وہ تمام داستان سنائی جو شہزادے پر گزری تھی جو کچھ پوشیدہ تھا ظاہر کیا اور ثبوت کے طور پر پری کی انگوٹھی دکھائی۔ وہ چاروں جھوٹے شرمندہ ہو کر وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔ تب دلبر اور محمودہ دونوں بادشاہ کے پاس حاضر ہوئیں اور اس کے قدم چومے بادشاہ نے ان کو انعام و اکرام دیا۔ فرح وزیر (یعنی بکاؤلی) نے چاہا کہ کچھ کہے مگر مصلحت سمجھ کر وہ خاموش رہی اس نے سارا حال سنا۔

فرح وزیر جادو سے بکاؤلی پری بن کر اڑ کر اپنے باغ میں آ گئی۔ اسے دیکھ کر خواصوں میں جان پڑی۔ بکاؤلی نے خط لکھا کہ تو باغ ارم سے پھول لے گیا تھا اور مجھے دھوکہ دے گیا تھا تیری وجہ سے مجھے فرح بننا پڑا میں نے تجھے تیرے باپ سے ملایا اور میں نے تجھے بھی پا لیا۔ اب تو جلدی سے میرے پاس آ جا۔ ورنہ میں طوفان برپا کروں گی۔بکاولی نے خط سمن پری کو دیا شہزادے کا پتہ بتایا۔ سمن پری نے وہ خط تاج الملوک تک پہنچایا۔ اس نے پڑھ کر جواب دیا کہ حمالہ دیونی کو بھیج تاکہ مجھے لے چلے ورنہ میں تیرے فراق میں جان دے دوں گا۔ سمن پری نے خط بکاؤلی تک پہنچایا۔ وہ خط پڑھ ہی رہی تھی کہ حمالہ دیونی حاضر ہو گئی۔ وہ فوراً آگئی اور تاج الملوک کو اٹھا کر لے آئی۔ دونوں ارم میں رہنے لگے اور خوشی منانے لگے۔ کسی چغل خور نے بکاؤلی کی ماں جمیلہ کو راز بتایا اس نے اٹھا کر تاج ملوک کو دریائے طلسم میں ڈال دیا اور پری کو قید کر دیا۔ اس کی پریوں نے بکاؤلی کو بہت سمجھایا مگر وہ اپنے ارادے کو بدل نہ سکی۔

شہزادہ تاج الملوک جب دریائے طلسم سے باہر نکل کر آ گیا تو اسے ایک جزیرہ نظر آیا وہاں ایک اژدہا نظر آیا۔ اس نے اپنے منہ سے ایک کالا سانپ نکالا۔ کالے سانپ نے اپنے منہ سے ایک من نکال کر زمین پر رکھی اور اسے چاٹنے لگا۔رات انہوں نے اسی طرح گزاری جب صبح ہوئی تو کالے سانپ نے من اپنے منہ میں ڈالی اور اژدہے نے سانپ کو نگل لیا اور غائب ہو گیا۔ دوسری رات پھر ایسا ہی ہوا شہزادے نے سوچا کہ ان سے من کیسے حاصل کیا جائے۔ وہاں کچھ گائیں چر رہی تھیں۔ شہزادے نے گوبر اٹھا کر من پر پھینکا من دب گیا اور دونوں سانپ اندھے ہوگئے۔ شہزادے نے من اٹھا لیا جب صبح ہوئی تو شہزادہ وہاں سے چل پڑا۔ راستے میں ایک حوض پر ایک پری کو روتے ہوئے پایا۔ شہزادے نے اسے پوچھا کہ تمہارے رونے کی کیا وجہ ہے اس نے جواب دیا کہ میں پری ہوں میرا نام روح افزا ہے میرے باپ کا نام مظفر ہے۔ وہ فردوس کا بادشاہ ہے اور ارم کا بادشاہ میرا چچا ہے۔ بکاولی بیمار تھی ایک دن میں اس کی خبر گیری کے لئے جا رہی تھی تو مجھے ایک دیو زبردستی اٹھا کر یہاں لے آیا۔ بکاولی کا نام سن کر تاج الملوک رونے لگا۔ پری نے کہا اگر میں یہاں سے چھوٹ جاتی ہوں تو آپ کی ضرور مدد کرتی، مگر مجبور ہوں۔

شہزادے نے اس پری کو ساتھ لیا اور فردوس میں اپنے ماں باپ کے پاس پہنچا دیا۔اسپری کی ماں حسن آرا اور باپ مظفر نے شہزادے کا شکریہ ادا کیا شہزادہ جانے لگا تو انہوں نے روک لیا۔ بکاولی اور اس کی ماں جمیلہ روح افزا کی خبر گیری کے لئے اس کے گھر آئیں۔ خبر گیری کے بعد جمیلہ واپس چلی گئی اور بکاولی کو روح افزا کے اصرار پر ایک ہفتہ کے لئے وہیں چھوڑ دیا۔ اس کے بعد روح افزا نے بکاولی اور تاج ملوک کی ملاقات کرائی۔ سات دن گزرنے کے بعد جمیلہ آئی اور بکاولی کو لے گئی۔

اس کے بعد روح افزا نے اپنی ماں سے کہا کہ شہزادے کے احسان کا بدلہ چکایا جائے اور بکاولی اور تاج الملوک کی شادی کرائی جائے۔ حسن آرا نے بات مان لی وہ جمیلہ کے پاس گئی اس کو منایا۔ پھر بکاولی کے باپ فیروز شاہ سے بات کرکے اسے بھی منایا۔ تاریخ طے ہوئی سامان مہیا کیا اور بکاولی اور تاج الملوک کی شادی ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد اجازت لیکر شہزادہ اپنے وطن واپس چلا گیا۔ جب “گلشن نگارین” میں پہنچے تو محمودہ اور دلبر بہت خوش ہوئیں۔

کچھ عرصہ کے بعد راجہ اندر کو بکاؤلی کی یاد آئی۔ اس نے پریوں سے پوچھا کہ بکاؤلی کہاں ہے۔ پریوں نے بتایا کہ اس نے شہزادہ تاج الملوک سے شادی کر لی ہے۔ راجہ اندر نے حکم دیا کہ وہ جہاں ہے اسے اٹھا کر لے آؤ۔ پریاں گئییں اور بکاؤلی کو تاج الملوک کے ساتھ اٹھا کر راجہ اندر کے دربار میں لے گئیں۔ اسے آگ میں ڈال کر پاک کیا گیا پھر وہ راجہ اندر کی محفل میں ناچنے اور گانے لگی۔ وہاں سے اجازت ملتے ہی رات کے آخری پہر وہ اڑ کر چلی گئی۔ اس کے بعد یہ اس کا روزانہ کا معمول بن گیا ایک دن رات کے وقت شہزادہ جاگا تو دیکھا کہ پری بغل میں نہیں ہے۔ وہ پریشان ہو گیا کچھ دیر بے قرار رہنے کے بعد وہ سوگیا۔ صبح کے وقت جاگا تو پری کو اپنی بغل میں پایا۔ اس پر شہزادے کو شک ہو گیا دوسری رات شہزادہ جاگتا رہا۔ جب پری تخت پر سوار ہو کر جانے لگے تو وہ پیچھے پیچھے آیا اور تخت کا پایا پکڑ کر ساتھ چلا گیا۔

چھپ کر وہاں سے محفل میں گیا۔ وہاں بکاؤلی کے ناچ گانے کا لطف اٹھایا۔ طبلہ نواز سے طبلہ لے کر خوب بجایا اور محفل کو متاثر کیا۔ راجہ اندر نے خوش ہو کر بکاؤلی کو نو لاکھ کا ہار دیا اس نے وہ ہار طبلہ نواز یعنی تاج الملوک کے کاندھے پر ڈال دیا۔ محفل ختم ہوئی۔ پری سوارہوکر واپس گئی تو اسی طرح پائے کے ساتھ چمٹ کر شہزادہ بھی واپس آگیا۔ محل میں پہنچ کر بکاؤلی کپڑے بدلنے کے لیے گئی تو شہزادہ اپنے پلنگ پر آکر سوگیا۔ اگلی صبح یہ راز فاش ہوگیا۔ پری نے شہزادے کو وہاں جانے سے منع کیا مگر اس نے ایک نہ مانی۔ جب اگلی رات آئی تو حسب معمول شہزادہ بھی پری کے ساتھ راجہ اندر کی محفل میں گیا۔ پری ناچنے گانے لگی اور شہزادہ طبلہ بجانے لگا محفل ختم ہونے پر آئی تو راجہ اندر نے بکاؤلی سے کہا مانگو جو کچھ مانگنا ہے۔ اس نے صلے میں شہزادہ تاج ملوک کو مانگ لیا راجہ اندر کو غصہ آیا اس نے بد دعا دی کہ جا تیرا آدھا جسم پتھر کا ہو۔ کچھ عرصہ تو اسی طرح رہے۔ پھر تیرے جسم میں تبدیلی آئے تو آدمی کی شکل میں آئے۔ 12سال تو اسی طرح رہے۔ اس کے بعد تجھے پری کا جسم ملے اور تو اپنی مراد پائے۔

اردو ادب کے متعلق مختلف سوالات کوکیز (Quizzes) کی شکل میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

پری کو ایک بت خانے میں پھینکا گیا جہاں اس کا کمر سے نیچے کا جسم پتھر کا ہو گیا اور شہزادے کو ایک صحرا میں پھینک دیا گیا۔ صحرا میں چلتے ہوئے وہ ایک چشمہ پر پہنچا جہاں کچھ پریاں نہا رہی تھیں۔ پریوں نے شہزادے کو دیکھا تو ہنسنے لگیں اور ایک دوسرے سے کہنے لگیں کہ یہ وہی طبلہ نواز ہے جس پر بکاؤلی عاشق ہے۔ بکاولی کا نام سن کر شہزادے نے پریوں سے کہا کہ خدا کے لئے بکاؤلی کا پتا بتائے۔ پریوں نے اسے بت خانے میں پہنچا دیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی اپنی داستان سنائی صبح ہوتے ہی شہزادہ وہاں سے نکل کر باہر گیا۔ راستے سے بھول کر وہ ایک محل کے قریب پہنچا۔ راجا کی ایک بیٹی تھی جس کا نام چتراوت تھا۔ شہزادے کو دیکھ کر وہ اس پر عاشق ہو گئی۔ شہزادے کو بلا کر اسے محل میں پابند کر لیا گیا اور شادی کے لئے مجبور کر دیا گیا۔

اس طرح چترات اور تاج الملوک کی شادی ہوگئی۔ دوسری رات جب شہزادہ پری کے پاس گیا تو مہندی والے ہاتھ دیکھ کر وہ ناراض ہو گئی۔ شہزادے نے مجبوری کا اظہار کرکے پری کو مطمئن کیا۔ شہزادہ رات کو اٹھ کر پری کے پاس بت خانے میں جاتا تھا۔ ایک دن شہزادے کو پاس نہ پا کر چتراوت کو شک ہو گیا اس نے نوکروں سے شہزادے کا پیچھا کرایا۔ سارا راز فاش ہوگیا نوکروں نے بتایا کہ شہزادہ ایک پری سے پیار کرتا ہے جو بت خانے میں ہے۔ چتراوت کے حکم سے بت خانے کو کھود کر باہر پھینک دیا گیا۔ پری بھی نیست و نابود ہوگئی۔ ایک کسان نے اپنے کھیت میں سرسوں بوئی جب وہ تیار ہوئی تو دہقان کی بیوی نے وہاں سے ساگ کھایا۔ اس سے حمل ہو گیا 9 ماہ گزرنے کے بعد اس کے بدن سے ایک خوبصورت بچی پیدا ہوئی اور بہت جلدی جوان ہوگئی۔ہر طرف اس کی خوبصورتی اور جوانی کا چرچا ہو گیا یہ شہرت سن کر تاج الملوک اسے دیکھنے کے لئے آیا۔ لڑکی کو دیکھ کر شہزادے کو راجہ اندر کی بات یاد آگئی۔ تاج ملوک نے کسان سے لڑکی کا رشتہ مانگا مگر اس نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا لیکن چہرے کو دیکھ کر اس سے اندازہ ہوا کہ یہ پری ہی ہے۔ شہزادہ واپس چلا گیا اور مناسب وقت کا انتظار کرنے لگا۔

خدا کے فضل سے برا وقت گزر گیا اور اچھا وقت آیا لڑکی باپ کو ہاتھ سے پکڑکر مکان کے پیچھے لے گئی وہاں اسے دفن کیا گیا خزانہ بتایا اور باپ سے کہا کہ میں بکاؤلی پری ہوں اور ایک آدمی ذات کی وجہ سے مجھے خدا نے تیرے گھر پیدا کیا ہے۔ مگر یہ بات ظاہر نہ کیجئے۔ اچانک سمن پری تخت لے کر بکاولی کے پاس آئی اسے تخت پر بٹھایا اور اڑا کر چتراوت رانی کے محل میں لے گئی۔ تاج الملوک سویا ہوا تھا اسے جگایا جب شہزادہ اٹھا تو سورج چڑھا ہوا تھا۔ رانی بھی جاگ گئی۔ پری نے اسے دیکھ کر کہا کہ یہی میری سوتن ہے؟ شہزادے نے کہا کہ یہ تمہاری کنیز ہے۔ اس کے بعد سمن پری نے بکاؤلی، تاج الملوک اور رانی کو تخت پر بٹھایا اور “گلشن نگاریں” میں لے گئی۔ مدت سے کھوئے ہوئے شہزادے کے دوبارہ واپس آنے پر سب نے خوشیاں منائیں۔ بکاولی کی تاج الملوک سے شادی ہوگئی۔ تمام لوگ ایک ایک کرکے چلے گئے مگر بکاؤلی نے روح افزا کواپنےپاس روک لیا۔

ایک دن روح افزا چاندنی رات میں سوئی ہوئی تھی۔ سلطان کا وزیر بہرام سیر کرتا ہوا آیا۔ پری کو دیکھ کر وہ اس پر عاشق ہو گیا۔ سمن پری کو ایک دن وہ اکیلا پاکر بہرام نے اس سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ میں روح افزا پر عاشق ہوں۔ اس سے میری شادی کرائیے۔ سمن اسے لے کر روح افزا کے پاس آئی۔ اس سے ملاقات کرائی۔ روح افزا دن کو بہرام کو فاختہ بنا کر پنجرے میں بند کر لیتی تھی اور رات کو اسے آدمی بنا کر اپنے پاس رکھتی تھی اور عیش و عشرت کرتی تھی۔ ایک چغل خور خواص نے اس بات کی خبر روح افزا کی ماں حسن آرا کو کر دی۔ اس نے پنجرا منگوایا، جادو دور کیا اور پنجرہ کھولا تو دیکھا کہ وہ آدمی زاد ہے۔ اس نے حکم دیا کہ اسے لے جا کر جلا دو۔ لوگ اسے جلانے کے لیے لے جا رہے تھے اچانک راستے میں بکاؤلی اور تاج الملوک مل گئے۔ انہوں نے پہچان لیا۔ بہرام کو ان سے چھوڑا کر فردوس میں لے گئے۔ حسن آرا کو منایا اور بہرام اور روح افزا کی شادی کرا دی۔ اس کے بعد اپنے اپنے مقامات پر چلے گئے۔ اس طرح ان کی مرادیں پوری ہو گئیں۔

Mock Test 14

مثنوی گلزار نسیم کا خلاصہ 1

Leave a Comment