مثنوی زہر عشق کا خلاصہ

0

مثنوی زہر عشق کے مصنف نواب مرزا شوق کا اصلی نام حکیم تصدق حسین تھا۔ان کے آباؤ اجداد شاہان اودھ کے دربار میں بڑے مرتبے پر فائز تھے۔مرزا شوق خوش باش اور رنگین مزاج انسان تھے۔مرزا شوق کو فن طب کے علاوہ مختلف فنونِ لطیفہ سے بڑی دلچسپی تھی۔غزلیں بھی لکھی ہیں لیکن ان کا نام اپنی تین مثنویوں کی وجہ سے اردو شاعری کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔یہ مثنویاں ہیں۔بہار عشق، فریب عشق اور زہر عشق۔مرزا شوق کی شہرت زہر عشق اور بہار عشق کی وجہ سے ہے۔

اردو ادب کی تاریخ میں شوق کی مثنوی ‘زہر عشق‘ کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے۔ شوق نے یہ مثنوی 1277ھ مطابق 1860ء میں لکھی۔اس میں 566 اشعار ہیں۔مثنوی زہر عشق میں فوق فطری عناصر بلکل نہیں ملتے بلکہ اس کے بجائے زندگی میں پیش آنے والے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔یہ مثنوی بحر خفیف مسدس مخبون مقطوع میں لکھی گئی ہے۔اس کے متعلق مشہور ہے کہ اس کا شائع ہونا ممنوع تھا۔مثنوی میں پیش آنے والے واقعات تمام زندگی کے حقیقی واقعات معلوم ہوتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں یہ مثنوی حقیقت نگاری کا ایک دلچسپ نمونہ ہے۔مثنوی کی زبان نہایت سادہ اور لکھنؤ کی عام بول چال کی زبان ہے۔مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

مرگ کا کس کو انتظار نہیں
زندگی کا کچھ اعتبار نہیں
حشر تک پھر یہ ہوگی بات کہاں
ہم کہاں، تم کہاں، یہ رات کہاں

اس مثنوی میں مرزا شوق نے آسان الفاظ میں ایک حسین لڑکی مہ جبین کی دلی کیفیت کو بہت ہی دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔مثنوی کے ہیرو کی حیثیت سے شاعر نے خود کو پیش کیا ہے۔گویا یہ واردات ان کی آپ بیتی ہے۔یہ مثنوی واجد علی شاہ کے زمانے کے لکھنؤ کا پس منظر ہے۔اس کا قصہ یوں ہے کہ ہمسایہ میں ایک بڑے سوداگر کا گھر تھا۔اس کو شائستہ اور تعلیم یافتہ لڑکی مہ جبین سے عشق ہو گیا۔پھر ملاقات کی صورت نکلی۔وقفہ وقفہ سے کسی درگاہ پر جانے کے بہانے یہ لڑکی شاعر کے مکان آیا کرتی تھی۔جب لڑکی کے والدین کو پتہ چلا تو انہوں نے طے کیا کہ اس حسینہ کو کچھ عرصہ کے لئے بنارس میں اپنے ایک عزیز کے گھر بھیج دیا جائے۔

عمر کے تقاضے اور لکھنؤ کے ماحول کی رنگینی سے متاثر ہوکر لڑکی نے محبت کی بازی لگا دی تھی لیکن جب بات رسوائی تک پہنچی تو اس نے زہر کھا کر خودکشی کرنے کی ٹھانی۔قبل اسکے کہ والدین اس کو بنارس بھیجتے ایک رات محبوب کے گھر آئی اور اسے اپنے منصوبہ سے آگاہ کیا اور دوسری صبح زہر کھا کر ہمیشہ کے لئے موت کی گود میں سو گئی۔خودکشی سے پہلے کی رات اس نادان لڑکی نے اپنے محبوب سے جو باتیں کیں وہی مثنوی کا نہایت دلچسپ اور اثرانگیز حصہ ہے۔مثنوی کا یہ اقتباس آخری رات کی روداد پر مبنی ہے۔یہ اشعار کی صورت میں لڑکی کی زبان سے بیان ہوتے ہیں۔

مرزا شوق نے ‘زہر عشق‘ کے واقع کو اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ مثنوی نہایت سادہ اور پر اثر لگتی ہے۔یہ ایک لڑکی اور لڑکے کی محبت کی کہانی ہے۔حالانکہ اس مثنوی میں کوئی ایسی بات نہیں کی گئی جو قابل اعتراض ہو مگر اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ عشق و محبت کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی سچ لگتی ہیں۔ہوسکتا ہے شاید اسی وجہ سے انگریز حکومت نے اس کی اشاعت پر پابندی لگا دی تھی۔اردو مثنوی نگاری میں مرزا شوق کا نام ہمیشہ ادب سے لیا جائے گا۔زہر عشق مثنوی لکھ کر نواب مرزا شوق نے اردو مثنوی نگاری میں اپنا لوہا منوالیا۔نمونہءکلام ملاحظہ ہو۔

سب امیر و فقیر روتے تھے
دیکھ کر راہگیر روتے تھے
دل پہ جو گزری کچھ بیان نہ کی
کچھ وصیت بھی میری جان نہ کی

لڑکی کی المناک موت پر عاشق ہی نہیں بلکہ شہر کے تمام امیر و غریب رو رہے تھے۔اس کے علاوہ جو بھی اس راستہ سے گزرتا جا رہا تھا وہ بھی اس کی میت پر روتا چلا جا رہا تھا۔بیٹی کی موت پر ماں کا تڑپنا کہ اے میری بیٹی تو نے مرنےسے پہلے میرا بھی خیال نہ کیا اور مرتے وقت تیرے دل پر جو گزری ہوگی تو نے اسے بیان بھی نہیں کیا اور مجھ سے تو نے اپنی آخری خواہش کا بھی اظہار نہیں کیا۔میں کس طرح صبر کروں۔

مرزا شوق نے بڑے خوبصورت اور دلکش انداز میں اس مثنوی کے اشعار لکھے ہیں۔آسان اور سادہ سلیس زبان کا استعمال کیا ہے۔ایک ایک شعر ان کی شاعری کا سنگِ میل ہے۔مثنوی زہر عشق کے بارے میں ایک انگریز نے کہا ہے کہ اگر یہ مثنوی یورپ میں لکھی ہوتی تو اس کی قبر کو سونے سے لیپ دیا جاتا۔اور بقول مجنوں گورکھپوری اردو زبان میں نور نامے کے بعد جتنی یہ مثنوی پڑھی گئی ہے شاید ہی کوئی دوسری نظم پڑھی گئی ہو۔اس بات سے بھی اس مثنوی کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔