مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کا تنقیدی جائزہ

0

اب تک کی تحقیق کے مطابق دکنی اردو کی قدیم ترین مثنوی “کدم راؤ پدم راؤ” ہے۔ یہ مثنوی بہمنی دور کے پہلے شاعر فخرالدین نظامی کی تخلیق ہے جن کا تخلص نظامی ہے۔فخر الدین نظامی کی زندگی کے حالات کسی تذکرہ یا تاریخ میں نہیں ملتے البتہ مثنوی کی داخلی شہادت کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ احمد شاہ ولی بہمنی کے زمانہ میں بیدر میں تھے۔یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ دربار سے وابستہ تھے یا نہیں البتہ وہ فارسی داں ضرور تھے اس لیے کہ مثنوی کے سارے عنوان فارسی میں لکھے گئے ہیں۔

مثنوی “کدم راؤ پدم راؤ” کو اردو زبان کی پہلی طبع زاد مثنوی کہا جاتا ہے۔ اس کا زمانۂ تصنیف 825ھ (1421ء) اور 839ھ (1435ء) کا درمیانی حصہ ہے۔ اس مثنوی کا اصل نام کیا تھا یہ بھی اس وجہ سے معلوم نہیں ہے کہ اس مثنوی کے ابتدائی اور آخری صفحات غائب ہیں۔مثنوی کے دو کردار ہیں ایک ‘کدم راو’ راجہ ہے اور دوسرا ‘پدم راؤ’ وزیر ہے۔مولانا نصیر الدین ہاشمی نے انہی کرداروں کی مناسبت سے اس کا نام “مثنوی کدم راؤ پدم راؤ” رکھ دیا ہے۔

اس مثنوی میں اشعار کی تعداد 1032 ہے اور 1033واں شعر نامکمل ہے اور اس کے بعد کیا شعر ضائع ہوگئے ہیں۔ یہ مثنوی اپنی ہیئت کے اعتبار سے فارسی کی مقررہ ہئیت اور ‘فعولن فعولن فعولن فعل’ کے وزن میں لکھی گئی ہے۔حسب قاعدہ پہلے حمد آتی ہے پھر نعت رسول اور اس کے بعد بانی سلطنت کی مدح آتی ہے۔چونکہ مدح کے اشعار بھی مخطوطہ میں پورے نہیں ہیں اور مدح کے بعد کے بھی کئی صفحات کم ہیں اس لئے فوراً قصہ شروع ہوجاتا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا سوال تھے جو کدم راؤ نے پدم راؤ سے پوچھے تھے۔ مخطوطہ کے صفحات بیچ بیچ میں غائب ہونے کی وجہ سے قصہ کا تسلسل بھی بار بار ٹوٹ جاتا ہے۔

قصہ یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ کدم راؤ اپنے وزیر پدم راؤ سے کہہ رہا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے بات کرنا اچھا نہیں ہے۔میں نے جو کچھ تجھ سے کہا ہے (وہ کیا کہا تھا اشعار کے بیچ میں سے ضائع ہو جانے کے باعث معلوم نہیں کیا جاسکتا) اس پر اچھی طرح غور کرکے مجھے جواب دے اگر تو اپنی خطا بخشوانا چاہتا ہے اور بعد میں پچھتانا نہیں چاہتا تو صحیح صحیح جواب دے۔ یہ بات کہہ کر راجہ محل میں چلا گیا۔ وہ اتنا غصہ میں تھا کہ اس نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ کس نے سلام کیا اور کس نے سلام نہیں کیا۔ غصے میں بھرا ہوا راجہ محل میں جاکر سنگھاسن پر بیٹھ گیا اس کی اس حالت کو دیکھ کر محل کی رانیاں اور کنیزیں گھبرا گئیں۔

پہر رات گئے تک اس کی یہی حالت رہی۔ کوئی عورت اسے خوش نہ کر سکی۔ جب رانی نے اسکا ہاتھ ڈرتے ڈرتے پکڑا تو راجہ کدم راؤ نے کہا کہ اور باتیں چھوڑ اور یہ بتا کے ناگن نے کیا چھند کیا تھا۔ کدم راؤ نے رانی سے یہ بھی کہا کہ کسی غیر عورت کے ساتھ برا کام کرنے سے زیادہ برا دنیا میں کوئی اور کام نہیں ہے۔ اسی کا نام دونوں جہان میں روشن ہوتا ہے جو پرائی عورت کو اپنی ماں بہن سمجھتا ہے۔

کدم راؤ نے رانی سے کہا۔۔۔ سنا تھا کہ عورت بہت فریب جانتی ہے۔ ایسا فریب آج میں نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا۔ میں اس وقت سے بہت حیران و پریشان ہوں۔ بھلا کہاں اچھے ذات کی ناگن اور کہاں ادنیٰ ذات کا سانپ۔ لیکن میں نے دیکھا کہ ناگن کوڑیال سے میل کھا رہی ہے۔ خدا نے مجھے حاکم بنایا ہے میں اس بات کو برداشت نہ کر سکا اور تلوار لے کر اسی وقت سانپ کو مار ڈالا۔ لیکن ناگن جان بچا کر بھاگ گئی اور میری تلوار سے اس کی دم کٹ گئی۔

یہ واقعہ دیکھ کر مجھے عورت پر بھروسہ نہیں رہا اس واقعہ کے بعد سے اے رانی! مجھے تیرا اعتبار بھی نہیں رہا۔ سونے کی چھری بھی پیٹ میں نہیں ماری جاتی۔ سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے اور دودھ کا جلا چھاچ کو بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔رانی نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ اگر راجہ سنے تو میں کچھ عرض کروں۔ جو کچھ تو نے کہا ہے وہ بالکل سچ ہے۔ اگر میرا کوئی قصور ہے تو میں جان دینے کو تیار ہوں۔ لیکن دوسرے کا قصور مجھ پر نہ ڈالا جائے۔ برائی بھلائی دنیا میں ساتھ ساتھ ہی چلتی ہے۔ چاند اتنا حسین ہے لیکن اس میں بھی داغ ہے۔ کونسا مرد ہے جس کا پاؤں نہیں ڈگمگاتا اور کون سا درخت ہے جو ہوا سے بچے رہتا ہے۔تمام پتھر ایک قیمت کے نہیں ہوتے۔ سب عورتوں کو ایک جیسا نہیں سمجھنا چاہیے۔ اگر تو پواس رکھے گا تو رعایا بھی بھوکوں مرے گی اور محل بھی فاقہ کرے گا۔کیا تو نے نہیں سنا کہ جان خوش تو جہاں خوش۔نہ تیرا کوئی عقل مند بیٹا ہے اور نہ کوئی دوست ہے۔ آخر تیرا راج کون سنبھالے گا؟جو کچھ تو نے دیکھا وہ گزر چکا اور جو نقش و نام ہے وہ بھی نہیں رہیں گے۔ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنی چاہیے جس کے بدلے میں بھلائی حاصل ہو۔

کدم راؤ نے کہا کہ اے رانی تو نے شوہر پرستی کی جو بات کہی وہ بالکل سچ ہے۔ لیکن ٹوٹے ہوئے دل کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ٹوٹے ہاتھ کو کانپ سے باندھا جا سکتا ہے لیکن ٹوٹے ہوئے دل کو کسی چیز سے بھی سہارا نہیں دیا جاسکتا۔ پاپ اگر میرا باپ بھی کرے تو مجھے پسند نہیں۔مجھے سکون اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب کسی کو سچائی پر چلتا ہوا دیکھتا ہوں۔ عورت اسی وقت تک عقل مند رہتی ہے جب تک وہ کسی دوسرے مرد کو نہ دیکھے۔ مرد عورت کے فریب سے واقف نہیں ہے۔ وہ ظاہر میں محبت جتلاتی ہے مگر دل میں دشمنی رکھتی ہے۔ اس عورت کا مر جانا بہتر ہے جو اپنے شوہر کے سوا کسی دوسرے مرد کا تختۂ مشق بنے۔ رانی نے کدم راؤ کی بات سنی۔۔۔۔(یہاں تسلسل ٹوٹ جاتا ہے)

کدم راؤ نے پدم راؤ سے کہا کہ آج میرا تماشہ دیکھ۔ اس وقت وہاں کدم راؤ اور پدم راؤ کے سوا دوسرا کوئی نہیں تھا۔ کدم راؤ نے اپنے وزیر سے کہا کہ میں دوست اس شخص کو جانتا ہوں کہ جو لالچ کے بغیر دوستی نبھائے۔ تیرا ایک فقرہ بھی میرے لئے سوا لاکھ کے برابر ہے۔ تو سیانا اور عقلمند ہے اس لیے یہ بات اگر میں تجھ سے نہ کہوں تو کس سے کہوں گا۔گنوار آدمی سے بات کہنے کی وہی صورت ہے جیسے پنجرے میں ہوا اور چھلنی میں سے پانی نکل جاتا ہے۔

پدم راؤ کدم راؤ کی زبان سے یہ باتیں سن کر خوش ہوا اور کہا کہ اگر راجہ مجھ پر پورا بھروسہ اور اعتماد رکھتا ہے تو میرے ماتھے پر کستوری ملے تاکہ میں اپنے گھرانے میں عزت کے ساتھ واپس جاؤں اور دنیا میں میرا نام روشن ہو۔ کدم راؤ نے اس کی پیشانی پر کستوری ملی اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ پہلے ناگ کے سر پر پدم نہیں تھا یہ اسی وقت سے پیدا ہوا جب کدم راؤ نے اپنا ہاتھ پدم راؤ کے سر پر رکھا۔

پدم راؤ کھڑا ہوا اور راجہ سے عرض کی کہ سنا ہے کل سے آپ فاقہ کشی کرنے والے ہیں۔ اگر آپ ایک دن بھی کسی رنج سے بھوکے رہیں گے تو ملک خراب اور ہیرا نگر(کدم راؤ ہیرا نگر کا راجہ تھا) برباد ہو جائے گا۔اگر آپ بھوجن کریں گے تو مجھے سکھ ہو گا۔ آج برتھ رکھنا اچھا نہیں ہے اور جو اس بات کو اچھا کہتا ہے وہ آپ کا دشمن ہے۔ اگر آپ خوشی کے ساتھ کھانا نہیں کھائیں گے تو میں اپنے گھر نہیں جاؤں گا۔

کدم راؤ نے کہا کہ اے پدم راؤ! تو اگر سچ مانے تو کہوں کہ میں اب تک پردیسیوں کی خدمت سے محروم ہوں۔ حالانکہ ہمیشہ سے ہمارا یہی قاعدہ رہا ہے۔ساسان وجم بھی اسی ریت پر چلتے رہے ہیں۔ کسی پردیسی کو لے کر آؤ کہ میں اس کی خدمت کروں اور دان دوں۔

پدم راؤ نے عاجزی سے کہا کہ دنیا کے چلنے پھرنے والوں کو اپنے پاس مت بلاؤ کہ یہ آس دے کر ناراض کر جاتے ہیں۔ ان لوگوں کی عادتیں خراب ہوتی ہیں۔ میں یہ بات ہمدردی کی وجہ سے کہہ رہا ہوں۔ کدم راؤ یہ بات سن کر بگڑ گیا اور کہا کہ تو مسافروں اور پردیسیوں کو برا کیوں کہتا ہے۔ ان سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟ میرے سامنے ان کی کیا حقیقت ہے؟ تو اس کی فکر نہ کر اور ایک مسافر کو بلا کر لا۔

پدم راؤ چھت تک اونچا ہوا اور پہر رات تک عاجزی کرتا رہا۔ اس نے بار بار یہی کہا کہ راجہ میری بات مان لے۔ یہ لوگ تیرے سامنے تجھے چاند سورج قرار دیتے ہیں لیکن دل میں کچھ اور ہوتا ہے۔ کسی سادھو کو اپنے پاس نہ بلا۔ جوگی لوگ بغیر شراب اور گوشت کے نہیں رہتے۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہ کہیں تجھے بھی اسی راہ پر نہ ڈال دیں۔اس میں گھڑی بھر کا سکھ ہے لیکن اس کے خمار کا دکھ زیادہ بھاری ہوتا ہے۔

پدم راؤ نے کہا کہ میں ایک عرض اور کرتا ہوں۔ کدم راؤ نے جواب دیا کہ تیری بات کو اسی طرح چھپاؤں گا جس طرح سمندر میں موتی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ پدم راؤ نے کہا ہمیں دنیا سے کیا غرض ہے، ہمیں تو صرف آپ سے کام ہے، آپ کے سوا ہمیں کون پال سکتا ہے۔ کدم راؤ اس بات سے بہت خوش ہوا اور اپنے وزیر کو بڑا قیمتی لباس عطا کیا۔کدم راؤ نے کہا کہ پورے خاندان کو بلا کر انہیں خلعت دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کدم راؤ نے سارے خاندان شاہی کو بلا کر ہر ایک کو مرتبہ کے موافق سرفراز کیا۔

اس کے بعد قدم راؤ نے کہا کہ کسی پردیسی کو بلاکر مہمانداری بھی کرنی چاہیے۔ اہل دربار میں سے ایک نے کہا کہ باہر سے مچھندر کا بیٹا اگھور ناتھ آیا ہوا ہے۔ بہت بڑا جوگی ہے اور بہت سے علوم سے واقف ہے۔ وہ یقیناً آپ کے دربار کے لائق ہے۔راجہ نے یہ سن کر جواب دیا کہ اسے فوراً حاضر کیا جائے۔ وہ آدمی اس کے پاس گیا اور کہا کہ جلدی چل تجھے راجہ نے طلب کیا ہے۔اگھور ناتھ راجہ کے دربار میں حاضر ہوا تو راجہ نے پوچھا کہ تو نے کون کون سے ملک دیکھے ہیں۔ اگھور ناتھ نے اس بات کے جواب میں بے حد لاف زنی کی اور راجہ کو ایسا محور کیا کہ وہ اس کا گرویدہ ہو گیا۔ چند ہی روز میں راجہ کا یہ حال ہوگیا کہ اسے جوگی کے بغیر چین نہ پڑھتا تھا۔ جب جوگی نے راجہ سے کہا کہ میں لوہے کو سونا بنا سکتا ہوں تو کدم راؤ نے لوہے کا ڈھیر جمع کر دیا جسے اس نے سونا بنا دیا۔ کدم راؤ اس کا اور بھی گرویدہ ہو گیا۔ اب وہ جوگی کے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ اگھور ناتھ نے اس کے بعد راجہ کو “دھنور بید” کی تعلیم دی۔ جسے کدم راؤ نے ایک مہینے میں سیکھ لیا۔ ادھر رعایا بھی حیران تھی کہ آخر راجہ نے ایک جوگی کی صحبت کیوں اختیار کر لی ہے۔

ایک دن اگھور ناتھ نے کہا کہ راجہ “دھنور بید” تو معمولی بات ہے میں تو آپ کو “امر بید” بھی سکھا سکتا ہوں مگر مجھے قول دینا ہوگا کہ یہ کسی دوسرے کو آپ نہیں بتائیں گے۔ یہ کہہ کر اگھور ناتھ نے راجہ سے کہا کہ اگر عجائبات دیکھنے ہیں تو ایک جانور لے کر آئیے۔ راجہ محل میں گیا اور وہاں سے ایک طوطا لے کر آیا جسے رانی نے بڑی محبت سے پالا تھا۔راجا اسے پھل کھلاتا اپنے ہاتھ میں لئے جوگی کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ راجہ اب اس کا گلا چبا ڈال میں ابھی کرامات کھاتا ہوں۔راجہ نے ایسا ہی کیا تو وہ مر گیا اور سادھو نے اپنی روح طوطے کے جسم میں داخل کر دی اور اڑ کر راجہ کے ہاتھ پر آبیٹھا۔ طوطے نے کہا کہ راجہ بتا میں کون ہوں۔ کچھ دیر کے بعد وہ پھر اپنے جسم میں واپس آ گیا اور طوطا بھی زندہ ہو گیا۔ یہ دیکھ کر راجہ حیران رہ گیا اور جوگی کا پہلے سے بھی زیادہ قائل اور گرویدہ ہو گیا۔ پھر کہا کہ یہ عمل مجھے بھی سکھاؤ۔

اگھور ناتھ نے پہلے راجہ سے قول لیا اور پھر اسے “امر بید” سکھا دیا۔ راجہ نے جیسے ہی اس کے منتر سیکھنے شروع کئے محل کا کلک ٹوٹ گیا۔ لوگوں نے راجہ کدم راؤ سے بہت کہا کہ یہ بد شگونی کی بات ہے۔ مگر راجہ نے پرواہ نہ کی اور علم سیکھتا رہا۔ جو لوگ غور و فکر کے بغیر کام کرتے ہیں وہ دھن، مال، راج پاٹ جس چیز کے بھی مالک ہوں گنوا دیتے ہیں۔جب راجہ نے “امر بید” بھی سیکھ لیا تو ایک دن جوگی نے کہا کہ اب اس کا تجربہ کرکے دیکھو۔ چنانچہ جیسے ہی راجہ نے اپنی روح کو طوطے کے جسم میں داخل کیا اگھور ناتھ جوگی نے اپنی روح کو راجہ کدم راؤ کے جسم میں داخل کردیا۔ اب راجہ طوطا بن گیا اور جو گی راجہ بن گیا۔

لیکن جوگی کدم راؤ کے روپ میں آکر بہت پچھتایا۔ کیوں کہ نہ وہ محلات کی تفصیلات سے واقف تھا اور نہ محل کے آدمیوں میں سے کسی کو جانتا پہچانتا تھا۔ آخر اسے ایک تدبیر سوجھی۔ اس نے دربار عام کیا اور اس طرح سب سے متعارف ہونا چاہا۔ ایک دن پدم راؤ نے راجہ (جو دراصل جوگی تھا) سے پوچھا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ جب تک اگھور ناتھ آپ کے دربار میں نہیں آیا تھا سب کام ٹھیک چل رہا تھا۔ اب یہ سب کام آپ نے چھوڑ رکھا ہے۔ راجہ نے کہا کہ جوگی نے میرے ساتھ بڑا دھوکہ کیا ہے اور میں نے اسے مار ڈالا ہے۔ دیکھ یہ اس کی لاش ہے۔ لاش کو دیکھ کر لوگ حیران ہوئے کہ آسمان میں تھگلی لگانے والا جوگی کیسے مر گیا؟

جوگی نے سوچا ہوگا کہ اگر راجہ جو طوطے کے روپ میں زندہ رہا تو پھر اپنے روپ میں آ سکتا ہے۔ اس لیے اسے مروا دینا چاہیے۔ یہ سوچ کر ایک دن راجہ نے پدم راؤ سے کہا کہ طوطا مجھے برا بھلا کہہ کر گیا ہے۔ منادی کرو کہ جو اسے پکڑ کر لائے گا اسے انعام و اکرام سے سرفراز کیا جائے گا۔

پدم راؤ نے سمجھایا کہ اس طرح بدنامی ہوگی۔ کیونکہ کدم راؤ کے روپ میں جوگی نہ محلات کو جانتا تھا اور نہ کسی کنیز باندی کو پہچانتا تھا نہ اسے صحیح طریقہ سے بات کرنے کی تعمیر تھی۔ اس لیے جب وزیر نے بار بار اس سے اس کی وجہ دریافت کی تو وہ بہت ناراض ہوا اور تلوار لے کر اسے مارنے کے لئے دوڑا ض۔ لیکن پدم راؤ اس کی وار سے بچا اور اپنی گرفت میں لے کر اس کی نگرانی شروع کردی۔ وہ ابھی تک اسے کدم راؤ ہی سمجھے ہوئے تھا حالانکہ وہ کدم راؤ کے بھیس میں اگھور ناتھ تھا۔

اب اصلی راجہ کدم راؤ کا حال سنی۔ وہ طوطا بنا ہوا اڑتا رہا اور اپنی جان بچاتا ادھر ادھر مارا مارا پھرتا رہا۔ کبھی شکاری پرندوں سے اپنی جان بچاتا، کبھی دھوپ کی شدت سے بچنے کے لئے ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ پر جاتا۔ ایک دن وہ طوطوں کا ایک غول دیکھ کر ان کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک اس کی نگاہ اپنے محل پر پڑی اور وہاں اس نے پدم راؤ کو بھی دیکھا۔ یہ دیکھ کر وہ نیچے اترا اور وہاں گیا جہاں اس کا وزیر پدم راؤ تھا۔کدم راؤ طوطے نے پدم راؤ سے بات کی اور کہا کہ اے پدم راؤ کیا تو نے مجھے پہچانا؟ پدم راؤ نے انکار کیا۔ بڑے لیت ولعل اور باہمی گفتگو کے بعد کدم راؤ نے جو طوطے کے روپ میں تھا پدم راؤ کو وہ واقعہ یاد دلایا جب وہاں کوئی تیسرا نہ تھا۔اس پر پدم راؤ نے پوچھا؀

کدم راؤ تو کیوں ہوا، کھول کہہ

اس کے بعد طوطے نے سارا واقعہ جوگی کے دھوکہ دینے اور اپنے طوطا بن جانے کا سنایا۔ یہ سن کر پدم راؤ نے کہا؀

توئیں ساچ میرا گسائیں کدم
پدم راؤ تجہ پاو کیرا پدم

کہ تو سچ مچ میرا آقا کدم راؤ ہے اور میں پدم راؤ تیرے پیر کی خاک ہوں۔ اور کہا کہ اے پنکھ راؤ مجھے زبان دے کہ یہ بات جو میرے تیرے درمیان ہوئی ہے اسے تو ویسے ہی چھپا کر رکھے گا جیسے سیپی موتی کو چھپا کر رکھتی ہے۔ کدم راؤ نے زبان دی۔پھر پدم راو نے ساری باتیں بتائیں اس کے بعد رات کے وقت پدم راؤ چپکے سے سیدھا اس جگہ گیا جہاں جوگی کدم راؤ کے روپ میں سو رہا تھا؀

چلیا ساندھرے ساندھرے ناگ راؤ
کہ جیوں نیر سودھن چلے اپ بھاؤ

اور سوتے میں اس کے پاؤں کی انگلی میں کاٹ لیا۔ کاٹتے ہی زہر اس کے جسم میں چڑھنے لگا اور اگھور ناتھ کی روح کدم راؤ کے جسم کو چھوڑ کر پرواز کر گئی۔اسکے بعد وہ دوڑ کر طوطے کے پاس آیا۔ طوطا اڑ کر وہاں آیا اور پھر “امر بید” کی مدد سے وہ دوبارہ اپنے جسم میں داخل ہو گیا۔پدم راؤ نے راجہ کو یہ بھی بتایا کہ جوگی ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھا۔ نہ محل میں گیا اور نہ رانی سے ملا۔ یہ بات سن کر کدم راؤ بہت خوش ہوا۔ خوش ہو کر اس نے پردھان پدم راؤ کی عزت افزائی کی اور حکم دیا کہ ساری دنیا کو دان اور خیرات دو۔ ہر طرف خوشی کے شادیانے بجنے لگے؀

طبل ڈھول برغوں نفیراں اٹھے

جشن منانے کا یہ سلسلہ چھ مہینے تک جاری رہا۔ پھر راجہ اپنے محل میں گیا اور سنگھاسن پر بیٹھا۔ اس کے بعد کا حصہ مخطوطے میں نہیں ہے۔ ضائع ہو گیا۔

یہ خلاصہ مثنوی “کدم راؤ پدم راؤ” کا ہے۔مثنوی “کدم راؤ پدم راؤ” کی اولین اہمیت یہ ہے کہ یہ اردو زبان کا قدیم ترین ادبی و لسانی نمونہ ہے جسے 1431ء اور 1435ء کے درمیانی حصہ میں بہمنی دور حکومت میں فخرالدین نظامی نے تصنیف کیا۔اس مثنوی میں تقریباً بارہ ہزار الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان میں سے صرف سوا سو کے قریب الفاظ عربی و فارسی کے ہیں۔اس مثنوی کو جمیل جالبی نے ترتیب دے کر ایک طویل مقدمے کے ساتھ 1973ء میں انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی سے شائع کرایا تھا۔جمیل جالبی نے “کدم راؤ پدم راو” کی اولیت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے: “اس دور کی سب سے پہلی تصنیف جو اب تک دریافت ہوئی ہے فخرالدین نظامی کی “کدم راؤ پدم راؤ” ہے۔

Mock Test 8

مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کا تنقیدی جائزہ 1