مثنوی دریائے عشق کا خلاصہ

0

خدائے سخن میر تقی میر کی مثنوی دریائے عشق کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ان کی کامیاب مثنویوں میں سے عشقیہ مثنویوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔میر نے اپنی زندگی میں کل نو عشقیہ مثنویاں لکھی ہے۔ان کی عشقیہ مثنویاں انکی جوانی سے متعلق معلوم ہوتی ہیں۔میر کی عشقیہ مثنویاں دور حاضر کے عشقیہ واقعات کی عکاسی کرتی ہیں۔میر تقی میر کے والد میر کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ بیٹا عشق کرو، عشق ہی اس کارخانہ ہستی کا چلانے والا ہے۔بغیر عشق کے زندگی وبال ہے۔عشق میں جی جان کی بازی لگا دینا ہی کمال ہے۔عشق ہی بناتا ہے عشق ہی جلا کر کندن بنا دیتا ہے۔

مثنوی دریائے عشق میں میر نے اپنا تصور عشق نمایاں طور پر پیش کیا ہے۔اس مثنوی کے ابتدائی اشعار پڑھنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساری کائنات عشق کے محور پر گھوم رہی ہے۔اس مثنوی میں میر نے جذبات نگاری سے بھی کام لیا ہے۔اور عشق و محبت کے جذبات کی فطری عکاسی کی ہے۔میر نے اس مثنوی میں اپنے دور کی تہزیب اور لکھنوی معاشرت اور حسن و عشق کے جذبات قصے کی شکل میں پیش کیے ہیں۔اس مثنوی کے مطالعہ سے ان کے جذبہ عشق کی توضیح ہوتی ہے۔دریائے عشق میر تقی میر کی ایک اہم مثنوی ہے جس میں میر نے اپنے عشقیہ جذبات بیان کئے ہیں۔اس مثنوی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فوق فطری عناصر نہیں ہیں۔مثنوی دریائے عشق میں میر نے ایک نوجوان عاشق کا تعارف کچھ اس طرح کرایا ہے۔

نوجوان عاشق ایک دن باغ میں جاتا ہے اور اسکی نظر ایک خوبصورت لڑکی پر پڑتی ہے جو کھڑکی سے جھانک رہی تھی اور وہ اس لڑکی کے عشق میں بری طرح سے گرفتار ہو جاتا ہے۔اس عشق نے نوجوان کو دیوانہ بنا دیا اور وہ نوجوان محبوب کے دروازے پر مرنے کے ارادے سے آکر بیٹھ گیا۔کچھ ہی دنوں بعد اس کے عشق کا چرچا عام ہونے لگا۔بدنامی کے ڈر سے لڑکی والوں نے اس نوجوان کو دیوانہ مشہور کردیا۔لیکن اس عشق کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عاشق کا چرچا عام ہونے لگا۔لڑکی کے گھر والوں نے یہ طے کیا کہ لڑکی کو دریا پار عزیزوں کے گھر بھیج دیا جائے تا کہ عزت تھوڑی بچ جائے۔چناچہ جب وہ لڑکی پالکی میں بیٹھ کر گھر سے نکلی تو یہ نوجوان عاشق بھی اس کے ساتھ آہ گزاری کرتے ہوئے نکل پڑا۔پالکی دریا کے پاس پہنچی اور وہ تینوں (وہ لڑکی اس کا عاشق اور لڑکی کی دایہ) کشتی میں سوار ہوئے اور لڑکی کی دایہ نے جان بوجھ کر لڑکی کی جوتی دریا میں پھینک دی اور کہا یہ افسوس کی بات ہے کہ تیرے محبوب کی جوتی موج دریا میں ہم آغوش ہو اور تو اسے واپس نہ لائے۔دایہ کی یہ بات سن کر وہ نوجوان دریا میں کود پڑا اور ڈھوب کر جان دے گیا۔

سن کے یہ حرف دایہ مکار
دل سے اس کے گیا قرار

میر کہتے ہیں کہ دایہ بہت دھوکے باز اور مکار نکلی۔دایہ کی یہ باتیں سن کر اس کو کسی طرح سے صبر و قرار نہ رہا اور اس کی باتیں سن کر بے چین ہوگیا۔ایک ہفتے کے بعد وہ لڑکی وہاں سے واپس آنے لگیں یعنی اپنے رشتے داروں کے گھر سے واپس آنے لگی۔دایہ اور لڑکی کشتی میں سوار ہوگئے اور لڑکی نے دایہ سے کہا جب وہ جگہ آئے جہاں میرا عاشق ڈھوبا تھا تو مجھے بتانا کہ میں بھی دیکھوں کہ کس جگہ ڈھوبا تھا۔جب کشتی دریا میں اس جگہ پہنچی تو دایہ نے اس سے کہا یہی وہ جگہ ہے جہاں تیرے محبوب نے جان دی تھی۔لڑکی نے یہ سن کر فوراً دریامیں چھلانگ لگادی اور اپنے آپکو بھی اسی جگہ پر ڈبو دیا۔لڑکی کے گھر والوں نے جال بچھایا اور دیکھا کہ وہ دونوں مردہ حالت میں ایک دوسرے سے پیوست حالت میں بڑے ہیں چناچہ اسی حالت میں دریا سے نکالے گئے۔انہیں الگ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ناکام رہے۔لڑکی کے ڈھوبنے پر شاعر نے سچی محبت کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے۔

حرف زن یوں ہوئی کے اے دایہ
یاں گرا تھا کہاں وہ کم مایہ

یعنی جس وقت لڑکی نے دایہ سے پوچھا تھا کہ میرا محبوب کس جگہ دوپٹہ تھا جب وہ جگہ آئے تو مجھے بتانا۔جیسے ہی وہ جگہ آئی تو دایہ نے بتایا کے یہ وہی جگہ ہے جہاں تیرا عاشق ڈوبا تھا۔یہ سن کر لڑکی نے فوراً دریا میں چھلانگ لگادی اور موجوں میں ہم آغوش ہوگئی۔اس طرح اس لڑکی نے اپنے عاشق کے لئے اپنی جان قربان کر دی۔