زہے نشاط اگر کیجیے اسے تحریر

0

زہے نشاط اگر کیجیے اسے تحریر
عیاں ہو خامے سے تحریر نغمہ جاے صریر
زبان سے ذکر اگرچھیڑیے تو پیدا ہو
نفس کے تار سے آواز خوشتر از بم وزیر
ہوا یہ باغ جہاں میں شگفتگی کا جوش
کلید قفل دل تنگ و خاطر دلگیر
کرے ہے وا لب غنچہ در ہزار سخن
چمن میں موج تبسم کی کھول کر زنجیر
کچھ انبساط ہواۓ چمن سے دور نہیں
جو وا ہو غنچۂ منقار بلبل تصویر
قفس میں بیضے کے بھی شوق نغمہ سجی سے
عجب نہیں کہ ہو مرغ چمن بنالہ صفیر
اثر سے باد بہاری کے لہلہانے میں
زمیں پہ ہم سر سنبل ہے موج نقش حصیر
نکل کے سنگ سے گر ہو شرارہ تخم فشاں
تو سبز فیض ہوا سے ہو وہ برنگ شعیر
زمین پر گرتے ہی لے آئے دانہ برگ و ثمر
جو ٹوٹے ہاتھ سے زاہد کے سبحۂ تزویر
ہوا پہ دوڑتا ہے اس طرح سے ابر سیاہ
کہ جیسے جائے کوئی پیل مست بے زنجیر
نہ خار دشت ہی نرمی میں خواب مخمل ہے
ہر ایک تار رگ سنگ بھی ہے تار حریر
ہوا میں ہے یہ طراوت کہ دود گلخن بھی
برستہ اٹھتا ہے آتش سے مثلِ ابر مطیر
یہ آیا جوش میں باران رحمت باری
کے سنگ سنگ میں سنگ یدہ کی ہے تاثیر
ہر ایک خار ہے گل ہر گل ایک ساغر عیش
ہر ایک دشت چمن ہر چمن بہشت نظیر
ہر ایک قطرۂ شبنم گہر کی طرح خوش آب
ہر اک گہر گہر شب چراغ پر تنویر
کرے ہے صبح شکر خندہ اس مزے کے ساتھ
کہ جس طرح بہم آمیختہ ہوں شکر وشیر
سنوارتی ہے جو شام اپنی زلف مشکیں کو
سواد مشک ختن پر ہے لاکھ آہو گیر
نہال شمع سے ہر شب چنے گل شبو
بہار عیش میں گلچیں کی طرح سے گلگیر
ہنسے چراغ تو ایسی ہنسی میں پھول جھڑیں
ہوا سے رنگ گل آفتاب ہو تغییر
بدل گئی ہے حلاوت سے تلخئی ہے دارو
شراب تلخ بھی ہے مےکشوں کو شکر و شیر
قوی ہے قوت تاثیر سے دوائے طبیب
غنی قبول کی دولت سے ہے دعائے فقیر
شکست دل کو تیرے یمن تندرستی سے
کرے درست اگر مومیائی تدبیر
‏تو موئے کاسئہ چینی کو چارہ ساز قضا
نکالا کاسۂ چینی سے مثل موئے خمیر
کھجائے سر جو کبھی مفسدان سرکش کا
علاج خارش سر ہو بہ ناخن شمشیر
بنا ہے نقش، شفاخانۂ ہزار شفا
ہر ایک خانۂ تعویذ صاحب تکسیر
ہر ایک اسم عزمیت میں اسم اعظم ہے
ہر ایک نسخہ شفا میں ہے نسخۂ اکسیر
رہا نہ کوئی گرفتار رنج و الم میں
چھٹے جو تیرے تصدق میں مجرمان اسیر
شہا! ہے دم سے تیرے زندگانی عالم
یہ تیرا دم ہے وہ اعجاز عیسوی تاثیر
مثال خضر تو اے رہنمائے ملت و دیں
جہاں میں پیر ہو پر ہو کرامتوں سے پیر
تو وہ ہیں حامی دنیا و دیں زمانے میں
کے تجھ سے زیب ہے دنیا کو دین کو توقیر
کیا شہان سلف نے مسخر ایک جہاں
کیے ہیں تو نے شہنشاہ، دو جہاں تسخیر
سحر سے شام تلک زرفشاں ہے پنجۂ مہر
نثار کرتا ہے ہر روز ایک گنج خطیر
فلک پہ کرتا ہے ہر شب ادا جو سجدۂ شکر
نشان سجدہ ھے زیب جبیں ماہ منیر
یہ روز بہ سے ترے ہے جواں جہان کہن
کہے نہ کوئی دو شنبے کو بھی جہاں میں پیر
حیات بخش جہاں تیرا مژدۂ صحت
جو بخشے خلق کو عمر طویل و عیش کثیر
ہزاروں سال ہر ہر صدی نکال کے دانت
ہنسیں اجل پہ جوانوں کی طرح مردم پیر
جہاں کو یوں تری صحت کے ساتھ ہے صحت
صحیح جیسے کہ قرآن ہو مع تفسیر
یہ وہ خوشی ہے کہ فربہ ہوں جس سے روزبروز
ہلال بست ونہم کی طرح بدن کے حقیر
پڑھوں ثند میں تری اب وہ مطلع روشن
کہ جس کا مطلع خورشید بھی نہ ہووبے نظیر

مطلع

شہنشا! وہ تیری روشنئی رائے منیر
عقول عشرہ کے انوار جس کے عشر عشیر
جو ہو نہ تابع امر تشاور في الامر
تو عقل کل کو کرے تو نہ ہر گز اپنا مشیر
کہ فیل کوہ کجک تیشہ فیل باں فرہاد
وہ دونوں دانت صفا ایک ایک جوۓ شیر
چلے نہ اشرفی آفتاب عالم میں
خط شعاع سے اس پر جو یہ نہ ہو تحریر
ابو ظفر شہ والا گہر بہادر شاہ
سراج دین نبی سایۂ خدائے قدیر
شہ بلند نگہہ شہر یار والا جاہ
قدیم مہر کلا خسرو سپہر سریر
جہاں مسخر و عالم مطیع و خلق مطاع
فلک موید واختر معین و بخت نصیر
زمیں ہو سبز جو تیرے سحاب بخشش سے
تو بوٹی بوٹی سے ہر خاک کی بنے اکسیر
بچشم مہر اگر تیرا نیر اقبال
کرے نگاہ سر آبجو وآب غدیر
تو فلس فلس سے ہو ماہیوں کے وقت شکار
نگین دست سلیمان بدست ماہی گیر
نہ ہے ثنا کے لیے تیرے اختتام و تمام
نہ ہے دعا کے لئے تیری انتہا و اخیر
مگر یہ ذوق سنا سنج و مدح خواں تیرا
غلام پیر کہن سال اک فقیر حقیر
کرے ہے دل سے دعا یہ سدا فقیرانہ
سنا ہے جب سے کہ رحم خدا دعائے فقیر
الہی آپ پہ ہوتا زمیں زمیں کو ثبات
زمیں پہ تا ہو فلک اور فلک کو ہو تدویر
فلک پہ چھوڑے نہ تا دامن مسیح حیات
زمیں پہ خضر کی تا ہو فنا نہ دامن گیر
عطا کرے تجھے عالم میں قادر قیوم
بجاہ و دولت و اقبال و عزت و توقیر

تن قوی و مزاج صحیح و عمر طویل
سپاہ وافر و ملک وسیع و گنج خطیر