نظم نیا شوالہ

0

علامہ اقبال کی نظم نیا شوالہ کی تشریح

علامہ اقبال کی یہ نظم “بانگ درا” میں شامل، نظم نمبر43 ہے۔ یہ نظم رسالہ “مخزن” (لاہور) میں 1905ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔علامہ اقبال کی اس نظم (نیا شوالہ) کو سمجھنے کے لئے انکی 1905 سے 1908ء تک کی شاعری کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ وہ دور تھا جب علامہ اقبال حب الوطنی اور قومی یکجہتی و اتحاد کا پرچار اپنی شاعری کے ذریعے اس بلند آہنگی سے کر رہے تھے کہ نہ صرف ملک کے ذیشعور افراد بلکہ ہندوستانی عوام سبھی خب الوطنی کے جذبہ کی کسک اپنے دلوں میں محسوس کرنے لگے تھے۔

علامہ اقبال کے اس دور کی مشہور نظموں میں “ہمالہ، ” پرندے کی فریاد،”صدائے درد، “تصویرِ درد، “ترانۂ ہندی” اور “ہندوستانی بچوں کا قومی گیت” قابل ذکر ہیں۔لیکن انکی اس قومی و وطنی شاعری کا نقطہ عروج ان کی یہ زیربحث نظم “نیاشوالہ” ہے جس میں انہوں نے ہندوستانی سیاست کے مشہور یک قومی نظریہ کا نہایت واضح تصور پیش کیا جو کہ اس دور میں ایک اچھوتا خیال تھا اور جس کو آگے چل کر انڈین نیشنل کانگریس کے صاحبِ فکر رہنماؤں نے آگے بڑھایا۔

ہندوستانی قومیت کی یہ خصوصیت ہے کہ اس سرزمین پر بسنے والی جماعتوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جو ازل سے اس کا باشندہ رہا ہو۔ مختلف تاریخی اور سماجی محرکات کے زیر اثر مختلف قومیں مختلف زمانوں میں ہندوستان آئیں اور یہیں کی ہو رہیں اور سرزمینِ ہند نے انہیں ہمیشہ کے لیے اپنا لیا۔ علامہ اقبال نے اس نظم میں اسی اخوت اور وطن پرستی کو ایک مؤثر انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ ہندو مسلم اتحاد پر یہ اردو میں بہترین نظموں میں سے ایک نظم ہے۔ یہ نظم دو بندوں پر مشتمل ہے، پہلے بند میں چار اشعار ہیں جبکہ دوسرے بند میں پانچ اشعار ہیں۔اب آئیے ان دونوں بندوں کی تشریح ملاحظہ کریں۔

پہلا بند

علامہ اقبال برہمن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر تو بُرا نہ مانے تو میں حقیقت کا اظہار کر دوں ، ہر چند یہ حقیقت قدرے تلخ ثابت ہوگی اور حقیقت یہ ہے کہ تو جن بُتوں کی عبادت کرتا ہے وہ انتہائی پرانے یعنی فرسودہ ہو چکے ہیں اور زمانہ حال میں ان کی حیثیت بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔ انہی بتوں کی عبادت نے تجھے اپنے جیسے انسانوں سے نفرت کرنا سکھایا۔ اے برہمن! صرف تو ہی اس لعنت میں مبتلا نہیں ہے بلکہ واعظ بھی اس طرح کی تفرقہ بازی اور جنگ و جدل میں مصروف ہے۔ اسی لئے میں نے اس صورتحال سے تنگ آکر کعبہ و بتخانہ دونوں کو چھوڑ دیا ہے، نہ اب میں واعظ کی بات سنتا ہوں اور نہ ہی تیرے اشلوک سننے پر آمادہ ہوں۔اے برہمن! تیرا عقیدہ محض یہ ہے کہ پتھر کی ان بے جان مورتیوں میں خدا کا وجود پوشیدہ ہے جب کہ میں اپنے وطن کی خاک کے ہر ذرّے کو دیوتا تصور کرتا ہوں اور اس پر جان نثار کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہوں۔

دوسرا بند

ایک برہمن آ ہم دونوں مل کر ایک بار پھر نفاق اور تفرقہ بازی کا خاتمہ کردیں اور اہلِ وطن جو باہمی نفرت اور نفاق کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں، ان کے درمیان اتفاق اور اتحاد کا جذبہ پیدا کرکے ایک بار پھر گلے ملا دیں۔ اسی نفاق کے سبب دلوں کی بستیاں ویران ہو چکی ہیں۔ آ ان میں ایک نئے شوالہ(نیا مندر) کی بنیاد رکھ دیں۔ یہ شوالہ ساری دنیا کی عبادت گاہوں سے مرتبے میں بلند و بالا ہو، اس شوالہ میں سب محبت و آشتی کے نغمات گائیں اور تمام اہلِ ہند میں محبت و اخوت کی فضا پیدا کریں، امن و محبت کا تصور ایسے گیتوں میں پوشیدہ ہے جو صلح، آشتی اور محبت و یگانگت سے عبارت ہیں۔