نظم شُعاعِ آفتاب

0

نظم شعاع آفتاب کی تشریح

یہ نظم علامہ اقبال کے پہلے شعری مجموعے “بانگ درا” میں شامل ہے۔ یہ چھوٹی سی نظم صرف دو بندوں پر مشتمل ہے جس میں علامہ اقبال نے شعاع آفتاب یعنی سورج کی کرن سے خطاب کیا ہے۔

پہلے بند میں علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ صبح کے وقت میں نے ایک شعاع آفتاب یعنی سورج کی کرن کو دیکھا، وہ بہت مضطرب تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تو اس قدر بے چین اور مضطرب کیوں ہے؟ کیا تو کوئی بجلی ہے جس کو آسمان قوموں کی بربادی کے لئے تیار کر رہا ہے؟

اس کا جواب دوسرے بند میں علامہ اقبال نے سورج کی کرن کی زبانی دیا کہ میری زندگی میں بڑے ہنگامے پوشیدہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے صبح کی آغوش میں پرورش پائی ہے لہٰذا میں دوسروں کو منور کرنے کے لیے بے تاب ہوں۔ اگرچہ میں ناری ہوں لیکن بجلی نہیں ہوں، میرا کام دوسروں کو جلانا نہیں بلکہ بیدار کرنا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ انسان کو بیدار کر دوں اس لئے میں تجھ سے یہ دریافت کرتی ہوں کہ تیری قوم میں کوئی شخص اسرار کائنات کے سمجھنے اور فطرت کے مطالعہ کرنے کا بھی آرزو مند ہے تاکہ میں اس کی آنکھوں میں سما جاؤں؟۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کو سحرخیزی کی تلقین کی ہے۔