نظم مرزا غالب

0

نظم ‘مرزا غالب’ کی تشریح

علامہ اقبال کی یہ نظم ان کے پہلے شعری مجموعہ “بانگ درا” میں شامل ہے جو 1924ء کو شائع ہوا۔ یہ نظم علامہ اقبال نے ہندوستان کے سب سے مشہور فارسی شاعر مرزا غالبؔ کی خدمت میں خراجِ تحسین کے طور پر پیش کی ہے۔غالب نے اپنی پوری زندگی دہلی میں گزاری اور اپنی شاعری کا آغاز فارسی کلام کے ساتھ کیا۔ مرزا غالب خود کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی میرے مرتبہ سے واقف ہونا چاہتا ہے تو اسے میرے اردو کلام کے بجائے فارسی کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ علامہ اقبال نے اس نظم میں بڑے خلوص کے ساتھ غالب کے کمالات کو واضح کیا ہے۔یہ نظم پانچ بندوں پر مشتمل ہے جن کی تشریح درج ذیل ہے۔

پہلا بند

علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ انسانی تخیل کہاں تک پرواز کرسکتا ہے تو اسے غالب کے فارسی کلام کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ اگر شاعری کی محفل کو جسم قرار دیا جائے تو غالب اس کی روح ہیں۔ “محفل سے پنہاں بھی رہا” اس کے دو معنی ہیں، ایک تو یہ کہ چونکہ روح نظر نہیں آتی اس لیے غالب پنہاں رہا، دوسرے معنی یہ ہیں کہ اس جملہ میں لطیف اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ غالب کا کلام اس قدر بلند ہے کہ بہت کم لوگ اس کو سمجھ سکتے ہیں یعنی اس کے معنی عام لوگوں کی نگاہوں سے چھپے ہوئے ہیں۔

دوسرا بند

اس بند میں علامہ اقبال مرزا غالب کی شاعری کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح پہاڑی ندی کے شور سے کوہساروں میں دل کشی اور جاذبیت پیدا ہوجاتی ہے اسی طرح تیری شاعری میں تخیل سے دنیا کی محفل میں وقار اور تمکنت کی شان پیدا ہوگئی ہے۔ تونے قدرت اور فطرت کی خوبیوں کو واضح کر دیا ہے۔ قوتِ متخیلہ کے علاوہ قدرت نے تجھے قوتِ فکر یعنی غوروفکر کرنے کی طاقت بھی عطا کی ہے اور اس قوت کی بناء پر تو نے اپنے کلام میں نئے نے مضامین باندھے ہیں۔ ان دو بنیادی خوبیوں کے علاوہ تیرے کلام میں ایسی شوخی پائی جاتی ہے کہ کہ اس کی وجہ سے تیرے اشعار میں زندگی پیدا ہوگئی ہے، تیرے کلام میں ادبی مصوری کا کمال بھی پایا جاتا ہے یعنی تو نے اپنے اشعار میں وارداتِ عاشقی کی ہوبہو تصویریں کھینچ دی ہیں۔

تیسرا بند

اے غالب تیرا کلام انسان کی قوتِ بیان کے لیے باعثِ عزت ہے اور تیرا تخیل اس قدر بلند ہے کہ ثڑیا بھی اسکی بلندی پر محو حیرت ہے۔ نیز اندازِ بیاں اس قدر دلکش اور حسین ہے کہ خود مضامین اس پر نثار ہونے کو آمادہ نظر آتے ہیں۔ تیرے کلام میں اس قدر شرینی ہے کہ اس کے سامنے حافظؔ اور سعدیؔ کا رنگ بھی پھیکا معلوم ہوتا ہے۔ شاعری میں تیرا ہم پلہ تیرے ہم عصروں میں اگر کوئی ہوا ہے تو وہ جرمنی کا مشہور شاعر گوئٹے تھا لیکن کیا زمانے کا انقلاب ہے کہ تو جس شہر میں مدفون ہے وہ اجڑ چکا ہے اور گوئٹے جس شہر میں مدفون ہے وہ آباد ہے یعنی تو اس قوم میں پیدا ہوا جو روبہ زوال ہے اور وہ اس قوم میں پیدا ہوا جو روبہ ترقی ہے۔

چوتھا بند

علامہ اقبالؔ غالب کے کلام کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شاعری کے میدان میں وہی شاعر تیری ہمسری کر سکتا ہے جسے قدرت نے قوتِ تخیل اور فکر دونوں عطا کی ہوں۔ کیسا عبرت کا مقام ہے کہ اب ہندوستان میں ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ کسی دوسرے غالبؔ کے ظہور کی توقع نہیں کی جاسکتی حالانکہ زبان اردو ابھی مرتبۂ کمال کو نہیں پہنچی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کوئی شخص پیدا ہو جو اس کو سنوارے یعنی زبان اردو اس شمع کی مانند ہے جسے پروانہ یعنی بڑے شاعر کی دلسوزی درکار ہو۔

آخری بند

آخری بند میں علامہ اقبال شہر دہلی سے مخاطب ہیں اور کہتے ہیں کہ اے دہلی! تو ہمیشہ سے علم و ہنر کا مرکز رہی ہے ، تیری تاریخ ناموروں کے تذکرے سے معمور رہی ہے، تیری امارات زبانِ حال سے ان پر نوحہ خوانی کر رہی ہیں۔ تیری خاک میں بڑے بڑے نامورشاعروادیب مدفون ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ غالبؔ جیسا بلند پایا شاعر تیری خاک میں پیدا نہیں ہوسکتا۔