نظریہ پاکستان

0
  • سبق : نظریہ پاکستان
  • مصنف : ڈاکٹر غلام مصطفی خان

سوال ۳ : نظریہ پاکستان کے سبق کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

تعارفِ سبق :

سبق ”نظریہ پاکستان“ کے مصنف کا نام ”ڈاکٹر غلام مصطفی خان“ ہے۔

تعارفِ مصنف :

ڈاکٹر غلام مصطفی خان جبل پور ہندوستان میں ۱۹۱۲ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے گھر پر ناظرہ قرآن پڑھا اور وہیں کے انجمن اسلامیہ ہائی سکول سے ثانوی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ علی گڑھ کالج سے ایم اے اور ناگ پور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور ڈیلیٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ۱۹۳۷ء میں پبلک سروس کمیشن پاس کر کے کنگ ایڈورڈ کالج امراؤتی ہندوستان میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ اس کے بعد آپ ناگ پور یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر مقرر ہوئے، پھر ۱۹۴۸ء میں آپ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے آپ کو اردو کالج میں صدر شعبہ اردو کے طور پر تعینات کیا۔ علامہ آئی آئی قاضی نے آپ کو حیدرآباد سندھ یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو مقرر کیا۔

ڈاکٹر صاحب ایک بڑے عالم، محقق، مصنف، ماہرِ لسانیات، ماہر تعلیم اور سلسلہ نقشبندیہ کے عظیم رہنما تھے۔ آپ کو اردو، ہندی، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ آپ کی علمی و تصنیفی خدمات کی وجہ سے پاکستان کے مختلف اداروں نے آپ کو تمغے، ایوارڈ اور سپاس نامے عطا کیے۔ حکومت پاکستان نے ”اقبال اور قرآن“ کتاب لکھنے پر آپ کو صدارتی ایوارڈ ”ستارہ امتیاز“ سے نوازا۔ آپ کی تحریر کردہ کتابیں پاکستان کی جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں۔ آپ کا انتقال ۲۰۰۵ء میں ہوا۔

خلاصہ :

نظریہ پاکستان سے مراد ایک ایسی اسلامی اور فلاحی مملکت بنانا ہے جہاں کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے خدا اور اس کے رسول کے سامنے ہمیں شرمندہ ہونا پڑے۔ جہاں ہمارا جینا مرنا صرف پاکستان کے لیے ہو اور قومی مفاد کے سامنے ذاتی مفاد کو دل سے نکال دیا جائے۔ جہاں ملی اتحاد اور مساوات، عدل، دیانتداری اور ہمدردی ہو اور جہاں مسلمان آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔

شاہ ولی اللہ کا زمانہ مسلمانوں کی زبو حالی کا زمانہ تھا۔ جہاں ہر قسم کی غیر مذہبی رسومات اسلامی معاشرے میں رائج ہو چکی تھیں۔ ایسے میں شاہ ولی اللہ اور ان کے صاحبزادے نے ایک تحریک شروع کی جس کا مقصد مسلمانوں کی اخلاقی اور معاشرتی برائیوں کو دور کرنا تھا۔

سرسید احمد خان اس بات سے واقف تھے کہ ہندو اور مسلمان سیاسی طور پر ہم آہنگ نہیں ہو سکتے۔ ان کا مذہب، زبان، تہذیب اور تمدن بہت الگ ہیں، اس لئے انہوں نے مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کیا اور انہیں ہندوؤں کی سیاسی جماعت سے دور رہنے کی تاکید کی۔
جب کانگریس کو تشکیل دیا گیا تو یہ کہا گیا کہ یہ پارٹی مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کی آواز بنے گی اور انگریزوں کو ملک سے نکالنے کے لیے اقدام کرے گی۔ لیکن بہت جلدی مسلمانوں کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ کانگریس صرف ہندوؤں کی جماعت اس لیے انہوں نے اپنی الگ جماعت تشکیل دی، جس کی قیادت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی اور کل ہند مسلم لیگ کے نام سے یہ جماعت مسلمانوں کے لیے ایک ایسی جگہ تھی جہاں وہ جمع ہو کر پاکستان حاصل کر سکیں۔
دنیا میں قومیت کی تشکیل کے دو بنیادی نظریہ ہیں۔ ایک تو مغربی نظریہ ہے جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جغرافیائی دور کے اعتبار سے قومیں وجود میں آتی ہیں۔ دوسرا اسلامی نظریہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنایا اور یہ ایک نظریاتی قومیت ہے جو لا الہ الا اللہ پر قائم ہے۔ جو رنگ یا نسل کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم نظریہ پاکستان کی قدر کریں اور پاکستان جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا ہے اس مقصد کو پورا کریں۔ اللہ کی عبادت کریں اور مساوات ، عدل قائم کریں۔ اللہ تعالی ہمارے ملک کو قائم و دائم رکھے۔ آمین۔

سوال ۱ : درج ذیل سوالات کے مختصر جواب تحریر کریں:

(الف) مسلمانوں کو اپنے دینی معاملات میں اپنی آزادی کب ختم ہوتی نظر آئی؟

جواب : بادشاہ اکبر کی بے جا رواداری اور ملکی سیاست میں ہندوؤں کے عمل دخل کی وجہ سے کافرانہ طور طریقے اس قدر رائج ہوگئے تھے کہ مسلمانوں کو اپنے دینی معاملات میں اپنی آزاد ختم ہوتی نظر آنے لگی۔

(ب )سلطان ٹیپو اپنی جدوجہد میں کیوں کامیاب نہ ہو سکا؟

جواب : میسور کے سلطان حیدر علی اور ان کے بیٹے سلطان ٹیپو نے نہ صرف ہندوؤں اور انگریزوں کا بھی مقابلہ کیا بلکہ افغانستان ترکی اور فرانس کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی مگر ملک کے دوسرے سرداروں نے ساتھ نہ دیا۔ اسی وجہ سے سلطان ٹیپو کو کامیابی نہ حاصل ہوئی۔

(د) علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کب اور کہاں کیا؟

جواب : ہندوں کا مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ دیکھ کر علامہ اقبال نے 1923 مسلم لیگ خطبہ الہ آباد کے اجلاس میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ پیش کیا ہے۔

(ہ) اہل مغرب نے قومیت کی بنیاد کس پر رکھی ہے؟

جواب : اہل مغرب نے قومی خاندانی، نسلی اور قبائلی بنیادوں میں ذرا وسعت پیدا کرکے قومیت کی بنیادیں جغرافیائی حدود پر استوار کیں اور کہا کہ قوم وطن سے بنتا ہے۔

(د) مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کیا ہے؟

جواب : مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد وہی رکھی جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھی ہوئی ہے یعنی لااالہ الا اللہ۔
یہ قومیت کسی نسل ، رنگ یا وطن کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک نظریے، ایک عقیدے ، ایک کلمے کی بنیاد پر رکھی گئی۔ ہے۔

(ز) نظریہ پاکستان کا مقصد کیا ہے؟

جواب : نظریہ پاکستان کا مقصد ایک اسلامی اور فلاحی مملکت بنانا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم کوئی ایسا کام نہ کرے جس کی وجہ سے ہمیں اللہ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے ۔ نظریہ پاکستان کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا جینا اور مرنا پاکستان کے لیے ہو اور ہم ملکی مفاد کے لئے ذاتی مفاد کو نظر انداز کردیں ۔

(ح) شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں کے مقاصد کیا تھے؟

جواب : شدھی تحریک میں ہندوؤں کا مقصد مسلمانوں کو ہندو بنانا تھا جبکہ سنگھٹن تحریک کا مقصد اس تحریک کا خاتمہ تھا۔

سوال ۲ : درج ذیل الفاظ و مرکبات کو جملوں میں استعمال کریں۔

کفر و الحاد : مسلمانوں نے ہمیشہ رواداری کو اپنا شیوہ بنایا ہے لیکن جب کفر و الحاد غلبہ حاصل کرنا چاہتے تو مسلمان ان کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا ہو جاتے۔
نفاق : اتفاق میں ترقی اور نفاق میں تنزل ہے۔
ولولہ : علامہ اقبال نے اپنی ولولہ انگیز نظموں سے مسلمانوں میں بیداری پیدا کی۔
مستحکم : وہی قومیں ترقی یافتہ ہوتی ہیں جو اپنے درست فیصلوں پر مستحکم رہیں۔
زک : ہندو مسلمانوں کو زک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔
خود مختار : ہمارے رہنماوں نے ایک آزاد اور خود اختیار مملکت بنانے کا فیصلہ کیا۔
جمعیت : وہ مع اپنی جمعیت کے ایک مورچے پر متعین تھے۔
اخوت : رسولِ کریم ﷺ نے اخوّت یعنی مسلمانوں میں بھائی چارے کی بنیاد رکھی۔
عمل پیہم : ڈاکٹر صاحب مثبت فکر اور عمل پیہم کے حامل تھے۔
فلاح و بہبود : مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے تمام رہنماؤں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

سوال ۴ : سوال کے متن کے پیشِ نظر درست جواب پر درست کا نشان لگائیں۔

(الف) سبق کے مصنف کا نام کیا ہے؟
٭ڈاکٹر سید عبداللہ
٭ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں(✓)
٭سرسید احمد خاں
٭جمیل الدین عالی

(ب) اکبر کے دور میں دین کی سربلندی کے لیے کس نے سختیاں جھلیں؟
٭حضرت مجددالف ثانیؒ(✓)
٭شاہ ولی اللہؒ
٭سید احمد بریلویؒ
٭شاہ اسمعیل شہیدؒ

(ج) سید احمد بریلوی اور شاہ اسمعیل کب شہید ہوئے؟
٭1821
٭1831(✓)
٭1841
٭1857

(د) کانگریس کب قائم ہوئی؟
٭1885(✓)
٭1886
٭1895
٭1904

(ہ) مسلم لیگ کس نے قائم کی؟
٭سرسید احمد خاں
٭نواب محسن الملک
٭قائد اعظم
٭نواب وقار الملک(✓)

(و) مصنف نے دنیا میں قومیت کی تشکیل کی کتنی بنیادیں بتائی ہیں؟
٭ایک
٭دو(✓)
٭چار
٭آٹھ

سوال ۵ : سبق کے متن کو ذہن میں رکھ کر درست اور غلط پر نشان(درست)لگائیں۔

(الف) مسلمان کفر و الحاد کا غلبہ ہوتے دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ درست(✓)/غلط
(ب) شاہ اسمعیل ؒ ، سید احمد بریلویؒ کے مرشد تھے۔درست/غلط(✓)
(ج) سرسید نے مجبوراً انگریزوں سے مفاہمت کو غنیمت جانا۔درست(✓)/غلط
(د) پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے انگریز کا ساتھ دیا۔درست/غلط(✓)
(ہ) ترکی کو نقصان نہ پہچانے کا وعدہ فریب ثابت ہوا۔درست(✓)/غلط
(و) مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد مغرب کے تصور قومیت سے مختلف ہے۔درست(✓)/غلط

سوال ٦ : کالم (الف)کا ربط کالم (ب)سے کیجیے۔

کالم (الف)
1930۔کانگریس۔مسلم لیگ۔1831۔نظریہ پاکستان۔
کالم (ب)
شہادت شاہ اسمعیل ۔اسلامی زندگی ۔الہ آباد۔
1885۔1906۔

جواب :

1930 الہ آباد
کانگریس 1885
مسلم لیگ 1906
1831 شہادت شاہ اسمعیل
نظریہ پاکستان اسلامی زندگی

سوال ۷ : سبق میں مذکور شخصیات میں سے کسی ایک شخصیت پر مختصر نوٹ لکھیں۔

شخصیت : سر سید احمد خان

سید احمد بن متقی خان پیدائش،7 اکتوبر 1817ء دہلی میں پیدا ہوئے۔ سر سید احمد خان ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے جس کے مغل دربار کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے۔ سر سید نے قرآن اور سائنس کی تعلیم دربار میں ہی حاصل کی، جس کے بعد یونیورسٹی آف ایڈنبرا نے انہیں قانون میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ 1838ء میں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور 1867ء وہ چھوٹے مقدمات کے لیے جج مقرر کیا گے۔ 1876ء میں وہ ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔سرسیداحمدخاں برصغیرمیں مسلم نشاۃ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔انھوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیداکرنے کے لیے تحریر،تقریر اور صحافت کا سہارا لیا۔ان کی تحریک ”سرسید تحریک” کے نام سے ملی خدمات کے لیے معروف ہے۔سر سید احمد خان کی ادبی اور سیاسی حیثیت مسلم ہے۔ان شعبوں میں ان کی خدمات بھی بے پایاں ہیں، مگر قوم پر جو احسان انہوں نے علم و تعلیم کے فروغ کے ذریعے کیا وہ ان کو زندہ و جاوید رکھے گا۔

سر سید احمد خان مسلمانوں کو تعلیم یافتہ قوم کی صورت دیکھنا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے 1875 میں علی گڑھ کے صحرا میں ایک مدرسے کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بعد 2 جنوری 1877 کو وائسرائے لارڈ لٹن نےمحمدن اینگلو اورینٹل کالج کا سنگ بنیاد رکھا ۔اس پتھر پر سرسید احمد خان نے تین بار ضرب لگا کر کہا:
میں اعلان کرتا ہوں کہ یہ پتھر درست اور موزوں طرح سے نصب ہو گیا ہے۔

اُن کے اعلان کے مطابق آج یہ کالج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں دنیا میں اپنی اعلٰی تعلیم و تدریس کی مثال ہے۔بالآخر ایک کامیاب اور بامقصد زندگی گزارنے کے بعد 27مارچ 1898ء بروزاتوار اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ ان کو علی گڑھ میں ان کے محبوب کالج کی مسجد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔