دیے ہیں زخم اتنے زندگی نے

0
دیے ہیں زخم اتنے زندگی نے
کہ کی خود کشی میری خوشی نے
مرے غم سے نہیں واقف تھا کوئی
کیا ظاہر ہے آنکھوں کی نمی نے
مری عادت نہیں ہے دور رہنا
مجھے بے گھر کیا ہے مفلسی نے
مرے زخموں پہ مرہم کون ملتا
دئے تھے زخم مجھکو آپ ہی نے
رہوں کس سے قریب اور دور کس سے
بتایا ہے مجھے یہ آگہی نے
کجی دیوار کی ڈھاتی ہے گھر کو
بتایا ہے گھروں کے مستری نے
کمی سانپوں کی دنیا میں نہیں ہے
ڈسا ہے آدمی کو آدمی نے
زمانے نے مجھے ٹھکرا دیا تھا
مجھے اپنا بنایا آپ ہی نے
دیار یار کے خاروں سے فیضان
لیا ہے حسن گل نے ہر کلی نے