غزل

0
شام پائے سحر نہیں پائے
زندگی مختصر نہیں پائے
مصلح قوم بن گئے لیکن
خود کی اصلاح کر نہیں پائے
حوصلے پست ہو گئے کیونکر
تم نے کیا بال و پر نہیں پائے
ان کو قیدی بنا کے چھوڑ دیا
جو ترے ڈر سے ڈر نہیں پائے
روشنی کی امید تھی ہم کو
شمس پائے قمر نہیں پائے
کس سے انصاف کی امید کریں
جب کہ خود کچھ بھی کر نہیں پائے
ہم نے سوچا تھا اس کو پا لیں گے
سوچ پائے مگر نہیں پائے
ظلِّ رحمت کی تھی طلب فیضانؔ
رحم فرما شجر نہیں پائے
فیضان رضا