نظم زندگی سے کیوں ڈرتے ہو کی تشریح و خلاصہ

0

سوال:- ن.م. راشد کی حالات زندگی اور کلام کی خصوصیات تحریر کیجئے۔

نام : نزر محمد
تخلص : راشد
پیدائش : 1910ء گجرانوالہ پنجاب میں ہوے۔
وفات : 1975ء (65) سال کی عمر میں لندن میں ہوئی۔
تعلیم : انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ اور جوانی میں وہ علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک سے بہت متاثر رہے اور باقاعدہ وردی پہن کر اور بیلچہ ہاتھ میں لیے مارچ کیا کرتے تھے۔

ملازمت :

راشد اپنی عملی زندگی کے آغاز میں ہی کچھ دنوں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ رہے۔ راشد نے ملازمت کے سلسلے میں زندگی کا بہت بڑا حصہ ایران اور UNO میں گزارا۔

خصوصیات کلام:

راشد کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے آزاد نظموں کو اردو میں مقبول مقبول عام بنایا۔ اور چند سالوں میں (تھوڑی ہی مدت) میں اردو آزاد نظم کو وہ استحکام (مضبوطی) بخشا، جس کی بدولت آزاد نطم کی بنیادیں ہمیشہ کے لیے مضبوط ہو گئیں۔ آزاد نظم لکھنے والوں میں ن.م.راشد کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے ن.م.راشد کو امیرِ کارواں کہا جاتا ہے۔ 1942ء میں ن.م. راشد کا پہلا مجموعہ ’ماورا‘ شائع ہوا جو نہ صرف اردو آزاد نظم کا پہلا مجموعہ ہے بلکہ یہ جدید شاعری کی پہلی کتاب بھی ہے۔ ماورا سے اردو شاعری میں انقلاب بپا ہو گیا تھا۔

مجموعۂ کلام

راشد کے تین مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوئے تھے،
ماورا،
ایران میں اجنبی
لا =انسان،
جب کہ
گمان کا ممکن، ان کی موت کے بعد شائع ہوا تھا۔

نظم زندگی سے ڈرتے ہو؟ کا خلاصہ:

ن.م. راشد کا شمار اردو کے ممتاز آزاد نظم نگاروں میں ہوتا ہے۔ راشد ایک دانشورانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ نصاب میں شامل نظم “زندگی سے ڈرتے ہو؟” ن.م. راشد کی مشہور آزاد نظم ہے۔ اس نظم میں راشد نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ زندگی ایک مسلسل امکان (ممکن/قابو/اختیار) ہے۔ انسان اس کائنات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور زندگی کے سلسلے کو آگے بڑھائے اور مسلسل کوشش کرتا رہے۔ اس نظم میں زندگی آدمی سے مخاطب ہے۔ پوری نظم زندگی کا مکالمہ ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ زندگی کا سفر جاری ہے، زندگی کبھی اور کہیں نہیں ٹھہرتی۔ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ شہر، بستیاں اجڑتے اور بستے رہتے ہیں۔ اسی طرح زندگی کا سفر جاری ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ زندگی تو انسان کے چولی دامن سے وابستہ ہے۔ (یعنی انسانی زندگی میں بہت سے دکھ آتے ہیں،لیکن ایسا بھی دن آتا ہے کہ یہ دکھ درد کے دن سکھ میں بدل جاتے ہیں۔ جس طرح ہر رات کے بعد صبح ہوتی ہے۔)

زندگی مسلسل حرکت اور عمل کا نام ہے۔ جب تک دنیا قائم ہے یہ حرکت اور عمل آگے بڑھتی رہے گی۔ اسی سے کامیابی کی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ حالات سے پریشان ہوکر مایوس ہو جاتے ہیں، اور یہ سوچنے لگتے ہیں کہ کل کیا ہوگا؟ ہمیں تمام اندیشوں سے بے نیاز ہو کر زندگی بسر کرنا چاہئے۔

آخر میں شاعر کہتا ہے کہ اے لوگو مستقبل کے خوف سے نکلوں آج کی زندگی میں جو خوشیاں اور مزیں حاصل ہیں ان سے لطف اندوز ہو۔ ماضی میں کیا ہوا، اس کی پرواہ نہ کرو۔ آئیندہ کیا ہونے والا ہے اس کی فکر بھی نہ کرو۔ بلکہ جو کچھ آج ہے اسی کے مطابق اپنی زندگی بسر کرو۔ اور مشہور مقولہ کو اپنی زندگی میں اتاروں۔ “جیو اور جینے دو”۔

⭕️ نظم زندگی سے ڈرتے ہو؟ کی تشریح:

زندگی سے ڈرتے ہو؟ (ن م راشد)

بند1۔

زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں!

حوالہ: یہ نظم “زندگی سے ڈرتے ہو؟” سے لیا گیا ہے۔ اس کے شاعر کا نام ن.م. راشد ہے۔

تشریح:- نظم میں زندگی آدمی سے مخاطب ہے۔ اسلۓ شاعر کہتا ہے کہ زندگی سے کیا ڈرنا۔ زندگی ہم میں بھی ہے اور تم میں بھی ہم بھی آدمی ہے اور تم بھی آدمی ہو۔ (یعنی موت کا ڈر کیسا ہم بھی زندہ ہے اور تم بھی زندہ ہو۔) زندگی اسی طرح جاری رہتی ہے۔

بند2۔

آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے،
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ؛
اس سے تم نہیں ڈرتے!
“ان کہی” سے ڈرتے ہو؟
جو ابھی نہیں آئی، اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو!

معنی: رشتہ ہائے آہن : مضبوط تعلق
وابستہ : جڑا ہوا
آمد : آنا
آ گہی : آگاہی/ علم/ خبر

تشریح:- شاعر اس بند میں کہتا ہے کہ خدا نے انسان کو زبان عطا کی ہے، جس سے وہ اپنا سکھ دکھ، خوشی غم دوسروں کے سامنے بیان کرتا ہے۔ جب انسان زندگی سے وابستہ (جڑا ہوا) ہے تو زندگی سے کیا ڈرنا۔ لیکن ان کہی باتو سے ڈرتے ہو۔ (یعنی موت کے خوف/موت کی گھڑی سے ڈرتے ہو-) دیکھو جو گھڑی ابھی نہیں آئی اس کے بارے میں سوچ کر کیا ڈرنا۔ (یعنی ابھی سے موت کے ڈر سے گھبرا کر زندگی سے مایوس ہو جانا ٹھیک نہیں، بلکہ جو زندگی ہمیں خدا نے دی ہے اسے خوشی سے گزارے۔ مستقبل Future”آنے والا” اور ماضی “گزرا ہوا past” کی فکر نہ کرے، حال “موجودہ present” کے لیے جئیں، کیونکہ کل ہو یا نہ ہو۔)

بند3

۔۔۔ پہلے بھی تو گزرے ہیں،
دور نارسائی کے، “بے ریا” خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی
یہ شب زباں بندی، ہے رہ ِخداوندی!
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں!
روشنی سے ڈرتے ہو؟

معنی: نارسائی : نہ پہنچ پانا/ ناکامی
بے ریا : نمودو نمائش سے پاک/خدائی سہارا
ہیچ : بے حقیقت/ بے معنی
آرزومندی : دل میں نئی نئی تمناؤں کا پیدا ہونا/ امید باندھنا
شب : رات
زباں بندی : زبان بند کر دیا جانا
لب : ہونٹ
تشریح:- اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ پہلے کے لوگوں سے آج کے لوگوں کا کیا مقابلہ ہے۔ ماضی میں انسان ایسے دور سے گزرا ہے جہاں نارسائی (ناکامیوں) سے اس کا سامنا ہوا۔ اُس زمانے میں لوگوں کو سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے بے ریا (خدائی کا سہارا) ملا۔ تم کل کے ڈر سے کیوں خاموش ہو۔ اگر تمہارے لبوں نے ہلنا بند کر دیا تو کیا ہوا، ابھی تمہارے ہاتھوں میں تو دم باقی ہے۔ یہ ہاتھ جب حرکت (ہلنا) میں آئیں گے تو راستے کا نشان بن جائں گے۔ اور نور کی زبان بن کر یہ ہاتھ بول اٹھیں گے۔ یہی آواز صبح کی آواز بن کر چاروں طرف پھیل جائے گی۔ یہ ہاتھ تمہیں روشنی کی طرف لے جائیں گے۔ اس روشنی سے کیوں ڈرتے ہو یہ روشنی تو زندگی کی کامیابی کی دلیل ہے۔

بند

۔۔۔ شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر، خاک ہو گیا آخر
اژدہام ِانساں سے فرد کی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہِ شوق میں جیسے، راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے!
آدمی چھلک اٹّھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟



معنی: فصیل : دیوار/ چار دیواری
لبادہ : لباس/ کپڑا
چاک : پھٹنا
خاک : مٹی
اژدہام : دیکھۓ
فرد : ایک آدمی
نوا :آواز/صدا
تشریح: نظم کے آخری بند میں شاعر کہتا ہے کہ شہر کی چار دیواری پر جس دیو کا سایہ تھا، اب اس سایہ سے شہر پاک ہو گیا ہے۔ لوگوں نے انقلاب زندہ باد کی آواز لگائی اور انہیں آزادی مل گئی۔(یعنی غلامی کا اندھیرا ختم ہو گیا ہے) اب وہ ہنسنے لگے۔ اجڑنے اور بسنے کا یہ عمل بدستور جاری ہے۔ لیکن تم ابھی سے ڈرتے ہو کہ(کل کیا ہوگا) کیوں؟ غلامی سے آزادی پاکر لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ خوشی کے مارے ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک رہے ہیں۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد تم ڈرتے ہو۔ دیکھو زندگی ایک مشکل امکان کا نام ہے، اس لیے خوفزدہ ہونے کی بجائے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے۔ اور زندگی کے سلسلے کو آگے بڑھاتے رہنا چاہیے۔

⭕️ مشقی سوالات کے جوابات

سوال1۔ نطم “زندگی سے ڈرتے ہو؟” میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟

جواب: اس نطم میں شاعر کہنا چاہتا ہے کہ انسان اس دنیا میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اسے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے اور زندگی کے سلسلے کو آگے بڑھاتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ زندگی ایک مستقبل امکان کا نام ہے۔

سوال2۔ “جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو” شاعر نے یہ کیوں کہا ہے؟

جواب: شاعر نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ بہت سے لوگ “مثبت” (قائم کیا گیا) انداز میں سوچنے کی بجائے “منفی” (نفی کیا گیا/رد کیا گیا) انداز میں سوچتے ہیں۔ یعنی کام شروع کرنے سے پہلے مختلف اندیشوں میں گھرے رہتے ہیں (یعنی کام اچھا نا ہوا تو………؟ بنتے بنتے بگڑ جائے تو……..؟ ہم نے جیسا چاہا ویسا نہ ہوا تو…….؟ اور وقت سے پہلے خدا کے گھر سے بلاوا آ جائے تو……..؟وغیرہ وغیرہ) اور اسی سوچ میں ہر گھڑی (لمحے) ڈرتے رہتے ہیں، لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ موت کا ایک دن مقرر ہے، اس سے کسی کو نجات مل نے والی نہیں ہے۔ شاعر نے اس مصرعہ میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔

سوال3۔ اس نظم سے آپ تین ترکیب منتخب کیجئے؟

جواب: رشتہ ہائے آہن، دورنارسائی، راہِ خداوندی
▪️نوٹ: ترکیب:- کئی چیزوں کو ملا کر ایک چیز بنانا /کسی چیز کے بنانے کا کوئی خاص طریقہ ترکیب کہلاتا ہے۔ یہ لفظ “مرکب” سے بنا، جس کے معنی ملے جلے کے ہیں۔

سوال4۔ اس نطم کے چند ہم قافیہ الفاظ کو جمع کیجئے؟

جواب: پاک، خاک زندگی، آدمی
آہن، دامن زبان، بیان
نارسائی، خدائی نشان، زبان
گھڑی، آگہی آرزومندی، خداوندی

سوال5۔ اس نظم سے چند ایسے مصرعوں کو یکجا کیجئے جن میں ردیفوں کا استعمال ہوا ہے؟

جواب: زندگی تم بھی ہو، زندگی “ہم بھی ہیں”
آدمی تم بھی ہو، آدمی “ہم بھی ہیں”
حروف اور معنی کے رشتہ ہاۓ آہن سے آدمی “وابستہ”
آدمی کے دمن سے زندگی ہے “وابستہ”
جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے “ڈرتے ہو”
اس گھڑی کی آمد کی آ گہی سے “ڈرتے ہو”

⭕️معروضی سوالات کے جوابات

سوال1۔ ن.م. راشد کا شمار کن شعراء میں ہوتا ہے۔

جواب: ان کا شمار ممتاز آزاد نطم نگاروں میں ہوتا ہے۔

سوال2۔ ن.م. راشد جوانی میں کس تحریک سے وابستہ ہوے؟

جواب: خاکسار تحریک سے وابستہ ہوے۔

سوال3۔ ن.م. راشد کا پہلا شعری مجموعہ کونسا ہے؟

جواب: ان کا پہلا شعری مجموعہ “ماورا” ہے۔

سوال4۔ آزاد نطم کا “امیرِکارواں” کسے کہا جاتا ہے؟

جواب: آزاد نطم کا امیر کارواں ن.م. راشد کو کہا جاتا ہے۔

سوال5۔ ن.م. راشد کا پورا نام اور تخلص کیا ہے؟

جواب: ن.م. راشد کا پورا نام “نذر محمد” اور تخلص “راشد” ہے۔

سوال6۔ ن.م. راشد نے کس مشہور مقولے کو اپنی زندگی میں اتارنے کو کہا ہے؟

جواب: اس مشہور مقولے کو اتارنے کو کہا ہے “جیو اور جینے دو”

تحریر محمد طیب عزیز خان محمودی⭕️