اب بھاگتے ہیں سایۂ عشق بتاں سے ہم تشریح

0

سوال :- حالی کے مختصر حالات اور شاعرانہ خصوصیات بیان کیجئے؟

  • نام : الطاف حسین
  • تخلص : حالی
  • پیدائش : 1837ء پانی پت میں
  • وفات : 1914ء دہلی میں
  • خطاب : شمس العلماء
  • والد : خواجہ ایزد بخش
  • ابھی حالی 9 برس کے ہی تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کے بڑے بھائی بہن نے ان کی پرورش کی اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اٹھائی۔ حالی کی شادی ان کی مرضی کے خلاف 17 برس کی عمر میں ہوئی۔

تعلیم : حالی کو اعلی تعلیم کا بڑا شوق تھا۔ حالی نے مرزا غالب سے فارسی پڑھی اور مولوی نوازش علی سے صرف، نحو اور منطق کا درس لیا۔

ملازمت: حالی نے 1963ء میں نواب مصطفٰی خاں شیفتہ کے بچوں کو تعلیم دینے کا کام کیا۔ اور 1872ء میں گورنمنٹ بک ڈیپو میں ملازمت کی۔ اور دہلی کے ایک اسکول میں ملازمت کی۔

وفات: حالی کی وفات 1914ء کو دہلی میں ہوئی۔

شاعرانہ خصوصیات

حالی کا شمار اردو کے مشہور شاعروں میں ہوتا ہے۔ حالی نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا۔ حالی نے اپنے معاصرین کے مقابلے میں سادگی اور اصلیت سے بھرپور دلکش غزلیں کہی۔ حالی کی شاعری کے پیچھے دراصل نواب مصطفٰی خان شیفتہ اور سرسید احمد خان کا ہاتھ ہے۔ حیات سعدی، یادگارغالب، حیات جاوید، ان کی مشہور سوانح عمریاں ہیں۔ “مسدس مد و جزر اسلام” حالی کی مشہور نظم ہے۔ مولانا حالی کو قدرت نے شاعرانہ دل و دماغ دیا۔ حالی 40 سال تک غزل کہتے رہے۔ اس کے علاوہ حالی نے سوانح نگاری اور تنقید نگاری کی طرف قدم بڑھایا۔

⭕️ سوال:- مندرجہ ذیل غزل کے اشعار کی تشریح کیجئے؟

اب بھاگتے ہیں سایۂ عشق بتاں سے ہم
کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہم
  • معنی:-بتاں : بت کی جمع /حسین/خوبصورت

حوالہ:- یہ شعر ہماری نصاب میں شامل ہے اور الطاف حسین حالی کی غزل سے لیا گیا ہے۔

تشریح:- اس شعر میں حالی فرماتے ہیں کہ ایک طرف ہم آسمان سے ڈرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے دل سے ڈرتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا دل حسینوں کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یہ حسین لوگ بھی اپنے چاہنے والوں پر ظلم و ستم کرتے ہیں۔ اور آسمان سے اس لیے ڈرے ہیں کیونکہ پرانے تصور کے مطابق آسمان سے ہی آفتیں نازل ہوتی ہے۔ اسی لیے ان آفتوں اور ظلم و ستم سے ہم اس قدر ڈر گئے کہ اب حسینوں کے سائے سے دور بھاگتے ہیں۔ یعنی بہت زیادہ خوفزدہ ہوگئے ہیں۔

  • محاورہ : ساۓ سے دور بھاگنا
  • مطلب : بہت زیادہ خوفزدہ ہونا
  • جملے : اب ہم حسینوں کے ساۓ سے دور بھاگتے ہیں۔
خود رفتگی شب کا مزہ بھولتا نہیں
آئے ہیں آج آپ میں یارب کہاں سے ہم
  • معنی :- خودرفتگی : بے خودی/آپے میں
  • شب : رات

حوالہ:- یہ شعر ہماری نصاب میں شامل ہے اور الطاف حسین حالی کی غزل سے لیا گیا ہے۔

تشریح: اس شعر میں حالی کہتے ہیں کہ رات کو ہم اپنے آپ میں نہیں (مدہوش ہونا) تھے۔ اور اس کیفیت میں ایک خاص لطف آیا اور یہ احساس ہوا کہ عالم ہوش (ہوش کی دنیا) میں انسان زیادہ پریشان ہوتا ہے کیونکہ اسے ہر بات یاد رہتی ہے۔اس لیے وہ پریشان رہتا ہے۔ لیکن مدہوشی کے عالم میں انسان سب کچھ بھول جاتا ہے اسے کسی چیز کی کوئی خبر نہیں رہتی ہے۔ وہ دنیا کے غم کو بھلا دیتا ہے۔
(اسی لیے خودرفتگی میں زیادہ لطف اور عشق میں ہوش مندی سے زیادہ مدہوشی ہے۔ کیونکہ اس میں عاشق محبوب کے تصور/ خیال میں کھوۓ رہتا ہے)
اس شعر میں “صنعت تضاد” کا استعمال ہوا ہے۔ جس سے کلام دوبالا /خوبصورت ہو گیا ہے۔

اب شوق سے بگاڑ کی باتیں کیا کرو
کچھ پا گئے ہیں آپ کی طرزِ بیاں سے ہم
  • معنی:- بگاڑ : خرابی
  • طرز : انداز

حوالہ:- یہ شعر ہماری نصاب میں شامل ہے اور الطاف حسین حالی کی غزل سے لیا گیا ہے۔

تشریح: اس شعر میں حالی اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں، کہ آپ کے طرز بیان سے ہم جان گئے ہیں، کہ بے رخی میں بھی آپ کو ہم سے لگاؤ ہے۔ اب آپ شوق سے ہمیں برا بھلا کہے۔ ہمیں آپ کی باتوں کا برا نہیں لگے گا کیونکہ آپ کے سلوک کا طریقہ ایسا ہے کہ اس سے آپ کی الفت (محبت) کا پتہ چلتا ہے۔
(حالی نے اس شعر میں گفتگو کا انداز اختیار کیا ہے جو بہت خوبصورت ہے۔

دلکش ہر ایک قطعۂ صحرا ہے راہ میں
ملتے ہیں جا کے دیکھئے کب کارواں سے ہم
  • معنی:- قطعہ : ٹکڑا
  • صحرا : جنگل/ ریگستان
  • راہ : راستہ
  • کارواں : قافلہ

حوالہ: یہ شعر ہماری نصاب میں شامل ہے اور الطاف حسین حالی کی غزل سے لیا گیا ہے۔

تشریح: حالی اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب ہمیں ریگستان کا ہر ٹکڑا اس قدر دلکش (خوبصورت) نظر آ رہا ہے کہ ہم اس میں کھو گئے ہیں۔ اور کارواں سے بچھڑ گئے ہیں۔ اگر ہم اسی طرح دلکشی میں کھوۓ رہے تو خدا ہی جانے کب کارواں (قافلے) سے جا کر ملیں گے۔ جس طرح مجنوں کو دیوانگی کے عالم میں ریگستان کا ہر ٹکڑا خوبصورت نظر آتا ہے اور وہ لیلیٰ کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے۔
(مطلب یہ ہے کہ ہر وقت منزل پانے کی تلاش میں خوبصورت راستوں سے منہ موڑنا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہیں کرتا ہے تو منزل تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔

لزت تیرے کلام میں آئی کہاں سے
یہ پوچھیں گے جاکے حالی جادو بیان سے ہم
  • معنی :- کلام : شاعری
  • جادوبیاں : انداز بیاں/ جس کی باتوں میں جادو ہو

حوالہ: یہ شعر ہماری نصاب میں شامل ہے اور الطاف حسین حالی کی غزل سے لیا گیا ہے۔

تشریح: غزل کے آخری شعر مقطع میں حالی اپنے آپ سے مخاطب ہوکر اپنے کلام کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے حالی ترے کلام میں یہ لزت اور یہ جادوبیانی کہاں سے آئی۔
(مراد یہ کہ حالی خود جادو بیان ہیں اور اس لئے ان کے کلام میں لذت ہے)
اس شعر میں حالی نے “تجاہل عارفانہ” کا استعمال کیا ہے۔ یعنی جان بوجھ کر انجان بن رہے ہیں اور اپنے آپ سے سوال کر رہے ہیں۔

⭕️مشقی سوالات و جوابات⭕️

سوال:- شاعر، دل سے اور آسمان سے کیوں ڈرا ہوا ہے؟

جواب:- شاعر اپنے دل سے اس لیے ڈرا ہوا ہے کہ وہ عشق کے مرض (بیماری) میں مبتلا ہوکر حسینوں کے ظلم و ستم کا شکار ہو رہا ہے۔
اور آسمان سے اس لیے ڈرا ہوا ہے کہ پرانے خیالات کے مطابق ساری آفتیں آسمان سے ہی نازل ہوتی ہے۔ اور یہ دونوں کی وجہ سے انسان مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔

سوال:- “خود کلامی” کا مطلب کیا ہے؟

جواب:- اس کا مطلب ہے کہ “اپنے آپ سے بات کرنا”۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جس میں ذہنی رو بہک جاتی ہے اور آدمی غیر محسوس طریقہ پر اپنے آپ سے باتیں کرتا ہے۔ (یعنی خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی جواب دیتا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے دو آدمی باتیں کر رہے ہو۔)

سوال:- اس غزل کا مقابلہ غالب کے درج ذیل مقطع سے کیجئے اور بتائیے کے دونوں میں کونسی بات مشترک ہے؟

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

جواب:- غالب اور حالی نے اپنے اپنے مقطع میں اپنے کلام کی خوبیوں اور اپنے انداز بیان پر تبصرہ کیا ہے۔ (غالب نے دوسرے شعرا کے کلام کی تعریف کرتے ہوے اپنے انداز بیان کی راہِ راست تعریف کی ہے۔ جبکہ حالی نے خود کو جادو بیاں کہا ہے۔) ان دونوں میں تعلّی کا الگ الگ انداز ہے۔

🔘 عملی کام:

حالی کی “مقدمۂ شعروشاعری” کا نسخہ حاصل کریں اور اس میں شعر کی خوبیاں بیان کی گئی ہے انہیں اپنے استاد سے پوچھیں۔

جواب:- “مقدمۂ شعروشاعری” الطاف حسین حالی کی مشہور تنقیدی کتاب ہے، اس میں شاعری کے اصولوں پر بحث کی گئی ہے۔ یہ تنقید کی پہلی باقاعدہ تصنیف مانی جاتی ہے۔ اور حالی نے اس مقدمہ شعروشاعری میں شعر کی خوبیاں بیان کی ہیں۔
(آل احمد سرور نے “مقدمہ شعروشاعری” کو اردو شاعری کا پہلا منشور (مینی فیسٹو) کہا ہے۔

🔘 معروضی سوالات کے جوابات:

س1۔ حالانکہ کس خطاب سے اور کب نوازا گیا؟

جواب:- 1906ء میں شمس العلماء کے خطاب سے نوازا گیا۔

س2۔ حالی کے والد کا نام کیا ہے؟

جواب:- خواجہ ایزد بخش

س3۔ حالی کے استادوں کے نام تحریر کریں؟

جواب:- مرزا غالب، مولوی نوازش علی

س4۔ حالی نے اپنی شاعری کا آغاز کس صنف سے کیا؟

جواب:- حالی نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا۔

س5۔ حالی کی سوانح عمری کے نام تحریر کریں؟

جواب:- حیات سعدی، یادگار غالب، حیات جاوید

س6۔ حالی کی مشہور نظم کا نام لکھیں؟

جواب:- مسدس مدوجزر اسلام

س7۔ تجاہل عارفانہ کی تعریف لکھوں؟

جواب:- اس کے لغوی معنی جان بوجھ کر انجان بننا ۔ اصطلاح میں کسی چیز کو جاننے کے باوجود انجان بننا تجاہل عارفانہ کہلاتا ہے۔

س8۔صنعت تضاد کسے کہتے ہیں تعریف کریں؟

جواب:-تضاد کہتے ہیں شعر میں ایسے الفاظ کو ایک ساتھ لایا جائے جن میں تضاد یعنی ضد پائی جاۓ اسے تضاد کہتے ہیں۔ یہ شاعری میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی صنعت ہے۔ اس کو تکافؤ / طباق بھی کہتے ہیں۔

تحریر طیب عزیز خان محمودی⭕️