ناول بیوہ کا خلاصہ

0

▪️مصنف پریم چند (1880ء تا 1936ء)▪️
منشی پریم چند کی زیادہ تر تخلیقات معاشرے کی اصلاح پر مبنی ہیں۔ پریم چند نے شہروں کی طرف کم اور گاؤں کی جانب زیادہ توجہ دی ہے۔
نصاب میں شامل سبق “بیوہ” پریم چند کا 182 صفحات پر مشتمل ایک مختصر ناول ہے۔ اس ناول کی ابتدا میں نو ابواب شامل ہیں‌۔ اس ناول میں پریم چند نے عورت کی بیوگی (بیوہ ہونے پر) گھر والوں کی طرف سے ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے جاتے ہیں،اور عورتوں کو سبز باغ دکھا کر ان کی عصمتوں پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں، ان کا بہت خوبصورتی سے اظہار کیا ہے۔
پریم چند نے اس مسئلے کا حل خود ایک بیوہ عورت سے شادی کرکے پیش کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ جس طرح بیوی کے مرنے پر شوہر دوسری شادی کر لیتے ہیں،ٹھیک اسی طرح شوہر کے مرنے پر عورت بھی دوسری شادی کر سکتی ہے۔

پریم چند نے اس ناول میں بڑے گھرانوں میں جہاں دولت کی ریل پیل ہوتی ہے وہاں کیا کیا گل کھلتے ہیں، یہ سب ظاہر کیا ہے۔

ناول بیوہ کے اہم کردار:

  • (1) امرت رائے
  • (2) دان ناتھ
  • (3) پریما
  • (4) لالہ بدری پرشاد
  • (5) دیوکی
  • (6) کملا پرشاد
  • (7) سمترا
  • (8) پورنا
  • (نوٹ: یہ بیوہ ناول کے اہم کردار ہیں۔)

ناول کا خلاصہ:

شہر کاشی کے آریہ مندر میں پنجاب کے پنڈت امرناتھ نے بیواؤں کے بارے میں تقریر کی۔ ہزاروں لوگوں نے سنا اور تعریف کی لیکن عمل صرف لالہ امرت رائے نے کیا۔ ان کی شریک حیات داغ مفارقت (وفات پا جانا) دے گئی تھی۔ اس لیے انہوں نے ایک بیوہ سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیا۔ تقریر تو ان کے دوست دان ناتھ نے بھی سنی، لیکن ان پر تقریر کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ دان ناتھ سہل پسند (سست/کاہل) آدمی تھے، کسی اصول کے لیے تکلیف اٹھانا انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ دان ناتھ کالج میں پروفیسر تھے اور آزاددانہ زندگی گزارنا پسند کرتے تھے۔
ان کے برخلاف لالہ امرت رائے اصول کے پکے تھے۔ وہ ایک بار جو بات بول دیتے پھر اس بات سے نہیں پھرتے تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ لالہ امرت رائے کے گھر والے ان کی شادی ان کی بیوی کی چھوٹی بہن پریما سے کرنا چاہتے ہیں۔ امرت رائے بھی پریما کو بہت پسند کرتے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے پنڈت امرناتھ کی تقریر کو سنا کہ جن کی بیویاں مر چکی ہیں انہیں کنواری عورتوں سے شادی کرنے کا کوئی حق نہیں، اگر وہ شادی کرنا چاہتے ہیں، تو کسی بیوہ سے ہی شادی کریں۔ تاکہ سماج کی بیواؤں کو انصاف مل سکے اور ان کی زندگی سنور سکے۔ اس تقریر سے متاثر ہو کر امرتا رائے پریما سے شادی کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ان کے سسر لالہ بدری پرشاد اور ان کے گھر والوں کے لاکھ سمجھانے پر بھی وہ نہیں مانتے اور آخر میں یہ کہہ دیتے ہیں اگر میں شادی کروں گا تو کسی بیوہ عورت ہی سے کروں گا۔ جب گھر والے نہیں مانتے تو وہ ایک ودھوا آشرم میں رہ کر ودھوا عورتوں کی مدد کرتے ہیں۔ اور آخر میں امرت رائے ایک بال بیوہ شیرانی دیوی سے شادی کر لیتے ہیں۔

ناول بیوہ کی کردار نگاری

پریما:

پریما کا کردار اس ناول کا ایک اہم کردار ہے۔ پریما کے والد لالہ بدری پرشاد کو یہ معلوم ہوا کہ امرت رائے نے شادی کرنے سے انکار کر دیا تو وہ سخت ناراض ہوئے۔ تو لالہ بدری پرشاد کی بیوی کملا نے امرت رائے سے بات کرنے کو کہا۔ لیکن پریما نے اپنی ماں “کملا” سے کہا “نہیں اماں! آپ کے پیر پڑتی ہوں ان سے کچھ مت کہنا۔ میں ان کے کار خیر (نیک کام) میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتی۔ میں ان کے اس نیک ارادے میں حائل (روکنا) نہیں ہوں گی۔”

آخر پریما دان ناتھ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے، جب یہ جان لیتی ہے کہ امرت رائے کی بھی یہی مرضی ہے۔ اور پھر شادی کے بعد پریما ایک فرماں بردار بیوی کی شکل میں اپنے خاوند دان ناتھ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ہے۔ اور ساتھ ہی امرت رائے کے تمام اصلاحی (خامیوں کی درستی) معاملات (کام کاج) کی دل سے حمایت بھی کرتی ہے۔

▪️کملا پرشاد:

پریما کا بھائی کملا پرشاد جو کہ ایک نالائق،بد مزاج اور کنجوش شخص ہے۔ کملا پرشاد کی بیوی “سمترا” جب کملا پرشاد سے کہتی ہے کہ امرت رائے سے بات کریں۔ تو کملا پرشاد یہ کہہ کر انکار کر دیتا ہے کہ یہ سبھا والے جو کچھ نہ کر گزرے وہ تھوڑا ہے۔

▪️پورنا:

ناول کا اہم کردار پورنا کا ہے۔یہی اس ناول کا مرکزی کردار بھی ہے جس کے ارد گرد کہانی گھومتی ہے۔ پورنا کو اس کے چاچا نے پالا اور پھر اس کی شادی پنڈت بسنت کمار سے کر دی۔ پورنا ایک خوبصورت لڑکی ہے۔ اور پنڈت بسنت کمار اپنی بیوی پورنا سے بہت پیار کرتا ہے۔ ہولی کے دن پنڈت بسنت کمار گنگا ندی میں نہانے جاتے ہیں کہ اچانک ان کو ایک کمل کا پھول دکھائی دیتا ہے، اور یہ سوچ کر کہ وہ پھول میں پورنا کو پہناؤں گا، پھول لینے کے لیے منجھدار میں چلے جاتے ہیں اور ڈوب جاتے ہیں۔ اس طرح پورنا بیوہ ہو جاتی ہے۔ ابھی پورنا کی شادی کو تین ہی برس ہوئے تھے کہ پورنا ودھوا ہو گئی۔

پورنا ایک خوددار عورت تھی اور ساتھ ساتھ بےحد خوبصورت بھی۔جب لالہ بدری پرشاد پورنا کو ایک برہمنی پڑوسن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی لڑکی پریما کی سہیلی ہونے کی وجہ سے تیرھویں کے بعد اپنے گھر میں رہنے کے لئے بلا لیتے ہیں، پہلے تو پورنا انکار کر دیتی ہے لیکن اپنی سہیلی پریما کے کہنے پر راضی ہو جاتی ہے۔ اور اب پورنا لالہ بدری پرشاد کے گھر رہنے لگتی ہے۔ اور پھر پورنا کو دیکھ کر پریما کا بھائی کملا پرشاد کا دل پورنا کی طرف کھنچنے لگتا ہے۔

پورنا کے گھر آنے سے کملا پرشاد کی بیوی سمترا کو گویا آنکھیں مل (محاورہ: بینائی ملنا) گئی ہوں۔ اب سمترا کا زیادہ تر وقت پورنا کے ساتھ گزرتا اور کملا پرشاد کو ذرا بھی موقع نہیں ملتا کہ وہ پورنا سے اپنے من کی بات کہہ سکے۔کئی روز بعد کملا پرشاد دو ریشمی ساڑیاں لاتا ہے اور اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ ایک ساڑی تم لے لو اور ایک پورنا کو دے دو۔
سمترا کو کملا پرشاد کا اس طرح ساڑھیاں لانا کچھ عجیب سا لگا۔ اور دونوں میں تکرار ہونے لگی۔ آخر کار سمترا غصے میں آکر دونوں ساڑھیوں کو باہر پھینک دیتی ہے۔ پھر کملا پرشاد پورنا سے ایک ساڑھی لینے کے لیے اصرار کرتا ہے۔ مگر پورنا خوبصورتی سے یہ کہہ کر کملا پرشاد کی بات کو ٹال دیتی ہے کہ”بابوجی! ریشمی ساڑھیاں پہننے کی مجھے مناہی ہے، تو یہ ریشمی ساڑھیاں لیکر میں کیا کروں گی۔ اگر ایسا ہی ہے تو آپ مجھے کوئی سوتی مہین دھوتی ہی لا دیجیے گا۔ کملا پرشاد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ چپکے سے ساڑھیاں اٹھائی اور پیر پٹکتے ہوئے باہر چلا گیا۔

مشقی سوالات و جوابات

سوال: پریم چند کی مختصر حالات زندگی بیان کرتے ہوئے ان کی ناول نگاری کا جائزہ پیش کیجئے۔

  • جواب:
  • اصل نام : دھنپت رائے (کنبے کے لوگ نواب رائے بھی کہتے تھے۔)
  • ادبی نام : پریم چند
  • پیدائش : 1880ء لمہی گاؤں بنارس یوپی
  • وفات : 1935ء بنارس یوپی
  • پیشہ : ناول نگار، افسانہ نگار، انشائیہ نگار
  • والد : عجائب لال (ڈاک خانے میں منشی تھے)
  • والدہ : آنندی دیوی
  • شریک حیات پریم چند : شورانی دیوی

پریم چند کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں ہوئی۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد 1899ء میں بنارس کے قریب چنار گڑھ کے ایک مشن اسکول میں اسسٹنٹ ماسٹر کی حیثیت سے ملازم ہوگئے۔ جولائی 1900ء میں اسکول میں ماسٹر کی حیثیت سے ملازم ہوئے۔ 1902ء میں تدریس کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنے کے بعد آلہ آباد کے ٹریننگ کالج میں داخلہ لے لیا اور اول درجہ سے امتحان پاس کیا۔اور 1904ء میں الہ آباد کے ایک اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہو گئے۔ اور 1920 ء میں سرکاری نوکری چھوڑ کر تصنیف و تالیف کو ہی معاش کا ذریعہ بنایا۔
پریم چند کو مضامین لکھنے کا شوق بچپن سے تھا۔ پریم چند کی پہلی تصنیف ایک ڈراما تھا جو انہوں نے 13 سال کی عمر میں لکھا تھا۔ اس کا عنوان تھا “ایک ماموں کا رومان” 1910ء تک یہ تصانیف نواب رائے کے نام سے چھپتی رہی۔ ہندی اور اردو ادب کے اس بے تاج بادشاہ نے 1936ء میں وفات پائی۔ بازار حسن، میدان عمل، بیوا، گودان ان کے مشہور ناول ہیں۔

منشی پریم چند کی ناول نگاری

اردو ناول کی سنگ بنیاد تو مولوی نذیر احمد کے مبارک ہاتھوں سے اسی دن رکھ دی گئی تھی جب انہوں نے 1869ء میں اپنی یادگار تصنیف مراۃالعروس مکمل کی تھی۔ لیکن اس عمارت کو اٹھانے اور بلندیوں تک پہنچانے کے لیے ایک ایسے عظیم فنکار کی ضرورت تھی جو اس صنف میں جان ڈال دے۔ آخر کار پریم چند نے یہ کارنامہ انجام دیا۔

پریم چند ایسے ناول نگار ہیں جنہوں نے خواب و خیال کی دنیا سے نکل کر زندگی کی حقیقتوں کو اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے۔پریم چند نے خاص طور پر دیہاتی زندگی کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے۔ پریم چند کے ناولوں کا ماحول حقیقی ہوتا ہے۔ پریم چند نے اپنے ناولوں میں کسانوں،مزدوروں، محنت کش لوگوں اور سماج کے نچلے طبقے کے لوگوں کے دکھ درد کی ترجمانی کی ہے۔ پریم چند نے برطانوی سامراج کے مظالم، عورتوں اور دلتوں کے خلاف امتیازی سلوک کو اپنا موضوع بنایا ہے۔

پریم چند نے ایک درجن سے زیادہ ناول لکھے ہیں۔ ان کا پہلا ناول “اسرار معابد” تھا۔ اس کے بعد پریم چند نے “ہم خرما وہم ثواب” ، “بیوہ” ، “بازار حسن” ، “نرملا” ، “غبن” ، “میدان عمل” اور “گؤدان” کے عنوان سے ناول لکھے۔

گؤدان پریم چند کا آخری اور سب سے اہم ناول ہے۔ یہ ناول دیہات کی جیتی جاگتی زندگی،کسانوں کے مسائل اور مایوسیوں کا آئینہ ہے۔ پریم چند نے اپنے ناولوں میں جو کردار پیش کیے ہیں وہ کردار نگاری کی بہترین مثالیں ہیں۔ پریم چند کی زبان بہت آسان ہے۔ پریم چند کے ناول ہمارے ادب کا اہم ذخیرہ ہے۔

⭕سوالات کے جوابات

سوال1: پریم چند کی ناول نگاری کی خوبیاں بیان کیجئے۔

جواب : پریم چند سے پہلے نزیر احمد، شرشار، شرر، سودا اردو ناول لکھ چکے تھے۔ لیکن اس عمارت کو اٹھانے اور بلندیوں تک پہنچانے کے لیے ایک ایسے عظیم فنکار کی ضرورت تھی جو اس صنف میں جان ڈال دے۔ آخر کار پریم چند نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ اور پلاٹ،کردار،مکالمہ،حقیقت نگاری غرض ناول کے ہر اجزائے ترکیبی کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

پریم چند پلاٹ کی تیاری پر خاص توجہ دیتے تھے۔ وہ “پلاٹ کو ناول کی ریڑھ کی ہڈی” مانتے تھے۔ یہ نہ ہو تو ناول کی عمارت آٹھ ہی نہیں سکتی۔ اس لیے پریم چند ناول کے پلاٹ کو بڑے غوروفکر کے ساتھ تیار کرتے تھے۔

پریم چند نے اپنے ناول کے کردار جیتے جاگتے لوگوں کو بنایا۔ مثلاً: ہوری، گوبر، سکینہ، امرت کانت یہ ایسے زندہ کردار ہیں جو رہ رہ کر ہمیں یاد آتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے ان کے بارے میں صرف پڑھا ہی نہیں بلکہ ان سے ملے ہیں۔ اور ساتھ رہے ہیں۔

پریم چند نے جس مسلۂ کو پیش کرنا چاہا اس کو کردار نگاری سے نہیں بلکہ مکالمہ نگاری سے ہی پیش کر دیا۔ اور نصاب میں شامل سبق بیوہ کے مکالمے اس کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔

پریم چند ایسے ناول نگار ہیں جنہوں نے خواب و خیال کی دنیا سے نکل کر زندگی کی حقیقتوں کو اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے۔

پریم چند نے خاص طور پر دیہاتی زندگی کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے۔ پریم چند کے ناولوں کا ماحول حقیقی ہوتا ہے۔ پریم چند نے اپنے ناولوں میں کسانوں، مزدوروں، محنت کش لوگوں اور سماج کے نچلے طبقے کے لوگوں کے دکھ درد کی ترجمانی کی ہے۔

اس طرح کی ناول نگاری سے پریم چند کا مقام و مرتبہ اردو ادب میں بلند بالا ہوا ہے۔ اور ان کا ناول بیوہ ایک شہکار ناول ہے۔

سوال نمبر 2 : ناول “بیوہ” کے اہم کردار کون سے ہیں، اور پریم چند ان کی عکاسی میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں؟

جواب : “بیوہ” ناول میں امرت رائے، دان ناتھ، پریما، لالہ بدری پرشاد، دیوکی، کملا پرشاد، سومترا اور پورنا یہ اہم کردار ہیں۔ اور ان کرداروں کی الگ الگ خصوصیات ہیں۔

مردانہ کرداروں میں ‘امرت رائے’ کا کردار شمع کی طرح روشن ہے۔ اس کی گفتگو (بات چیت) میں تاثیر اور عمل میں اخلاق ہے۔ شروع سے ہی یہ کردار قاری (پڑھنے والے) کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔
امرت رائے ایک کامیاب وکیل اور روشن خیال انسان ہے۔ پیشے سے وکیل ہونے کے باوجود سچائی کا دامن نہیں چھوڑتے اور اصول کی خاطر اپنی محبت کو بھی قربان کر دیتے ہیں۔

امرت رائے کی شادی لالہ بدری پرشاد کی چھوٹی بیٹی پریما سے ہونے والی تھی۔لیکن پنجاب کے ایک پنڈت امرناتھ کی تقریر سے امرت رائے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے پریما سے شادی کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ پنڈت امرناتھ جی نے کہا کہ “جن کی بیویاں مر چکی ہیں ان کو کنواری لڑکی سے شادی کرنے کا کوئی حق نہی۔ اگر شادی کرنا ہے تو بیوہ سے ہی شادی کرے۔” اس بات کو سن کر امرت رائے نے پریما سے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ امرت رائے کی پہلی شادی لالہ بدری پرشاد کی بڑی بیٹی سے ہو چکی تھی، لیکن وہ وقت سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔

امرت رائے اپنے دوست دان ناتھ سے پریما کی شادی کروا دیتا ہے۔اور پریما بھی یہ سوچ کر دان ناتھ سے شادی کر لیتی ہے کہ امرت رائے کی بھی یہی مرضی ہے۔ اور امرت رائے ایک ودھوا آشرم میں رہ کر بیوہ عورتوں کی خدمت کا کام کرنے لگتے ہیں۔

پورنا کا کردار بھی مرکزی کردار ہے۔پورنا اس ناول میں ہیروئن یا بیوہ کا ایک بہترین کردار ہے۔ پورنا ایک خوبصورت لڑکی تھی اس کی شادی پنڈت بسنت کمار سے ہوئی تھی۔ پنڈت بسنت کمار اپنی بیوی سے بہت پیار کرتے تھے۔ ابھی شادی کو تین برس ہی ہوئے تھے کہ پنڈت بسنت کمار ہولی ہولی کے دن گنگا ندی میں نہانے جاتے ہیں کہ اچانک پنڈت بسنت کمار کو گنگا ندی میں کمل کا پھول دکھائی دیتا ہے، اور یہ سوچ کر کہ یہ پھول میں پورنا کو پہناؤں گا۔اور پھر پنڈت بسنت کمار پھول لینے کے لیے منجھدار میں چلے جاتے ہیں اور ڈوب جاتے ہیں۔ اس طرح پورنا بیوہ ہو جاتی ہے۔ بیوگی کے عالم میں اسے کئی مشکل گھڑیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔اور پھر آخر میں اپنی عصمت کو بچا کر ایک بیوہ آشرم میں اپنی باقی زندگی بسر کرتی ہے۔ لیکن اپنی عصمت کو داغ لگنے سے بچا لیتی ہے۔

دان ناتھ سہل پسند (سست کاہل) آدمی تھے۔ کسی اصول کے لئے تکلیف اٹھانا انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ ایک کالج میں پروفیسر تھے۔ کالج سے آکر زیادہ تر وقت کتب بینی (کتابوں کا مطالعہ) اور سیروتفریح میں گزارتے تھے۔ دان ناتھ امرتا رائے کے کہنے پر پریما سے شادی کر لیتاہے۔ لیکن کملا پرشاد کی سازش کا شکار ہو کر پریما اور امرت رائے پر سک کرنے لگتا ہے۔ لیکن آخر میں دان ناتھ کے سامنے حقیقت آ جاتی ہے اور امرت رائے سے اپنی غلطی کی معافی مانگ لیتا ہے۔

کملا پرشاد ایک خود غرض، کنجوس آدمی ہے۔اور لالہ بدری پرشاد کا بیٹا ہے۔

پریما کا کردار اس لئے اہم ہیں کہ وہ امرت رائے کے نیک کام میں ہاتھ بٹاتی ہے۔ یہاں تک کی امرت رائے کے کہنے پر پریما دان ناتھ سے شادی کر لیتی ہے۔ اور شادی کے بعد بھی پریما امرت رائے کا ساتھ دیتی ہے۔

پریم چند نے سارے کرداروں کی گفتگو سے کرداروں کی ذہنی کیفیت اور ان کی نفسیات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔اور اس میں پریم چند کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

سوال نمبر 3: ناول “بیوہ” کے ذریعے پریم چند ہمیں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ وضاحت کیجئے۔

جواب : ▪️اس ناول میں بتایا گیا ہے کہ عورتوں پر بیوگی کے عالم میں گھر اور سماج کی جانب سے ان ظلم و ستم کیے جاتے ہیں اور ساتھ ہی بیوہ عورتوں کو سبز باغ دکھا کر ان کی عصمتوں پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔ اس کا خوبصورتی سے اظہار کیا گیا ہے۔

عورتوں کے بیوہ ہونے پر سماج میں کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ بلکہ انہیں حریص نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے بیوہ عورتوں کو اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے طرح طرح کی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس ناول میں پریم چند نے سماج کی ایک خطرناک برائی کو پیش کیا ہے۔
اور آخر میں اس کا حل بیوہ عورت سے شادی کرنے کی شکل میں پیش کیا ہے۔

اس ناول میں پریم چند نے سماج کے لوگوں سے بیوہ کی دوسری شادی کرنے پر بھی اصرار کیا ہے۔ اور کہا کہ سماج کے وہ لوگ (جن کی عورتیں) مر چکی ہے وہ بیوہ عورتوں سے شادی کرلیں تو سماج کی یہ برائی خودبخود ختم ہو جائے گی۔ اور بیوہ عورتوں کو ان کا حق مل جائے گا۔
یہاں تک کی پریم چند نے اپنی دوسری شادی ایک بال بیوہ سے کی تھی۔ پریم چند ہندو سماج کو خرابیوں سے پاک کرنے کے خواہشمند تھے۔

تحریر طیب عزیز خان محمودی