آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک تشریح

0

غزل

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے، تیری زلف کے سر ہونے تک
دام ہر موج میں ہے، حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک؟
ہم نے مانا، کہ تغاقل نہ کرو گے ،لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل!
گرمی بزم ہے اک رقص شرر ہونے تک
غم ہستی کا ،اسؔد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

تشریح

پہلا شعر

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے، تیری زلف کے سر ہونے تک

شاعر کہتا ہے کہ آہ کو اثر پیدا کرنے کے لیے عرصہ درکار ہوتا ہے اور جب تک آہ میں اثر پیدا ہوگا اور تمہاری زلف ہمارے دل کے حال زار سے آگاہ ہوگی تب تک ہم زندہ کہاں رہیں گے۔ہم مر چکے ہوں گے۔

دوسرا شعر

دام ہر موج میں ہے، حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک

بارش کا پہلا قطرہ سیپی میں گرتا ہے تو وہ موتی بنتا ہے۔شاعر کہتا ہے کہ ہر موج ایک جال کی مانند ہے اور اس جال کا ایک ایک حلقہ منہ کھولے مگرمچھوں کا بنا ہوا ہے۔گویا سینکڑوں مگرمچھ منہ کھولے ہوئے ہیں۔ایسی خطرناک صورت میں ایک قطرہ کے موتی بننے تک اس پر کیا کیا مصیبت حائل ہوتی ہیں۔در پردا غالب کہتے ہیں کہ انسان کو درجۂ کمال تک پہنچنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تیسرا شعر

عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک؟

شاعر کہتا ہے کہ عاشقی میں صبر ضروری ہے کہ صبر کے بغیر معاملات بگڑنے کا اندیشہ رہتا ہے۔لیکن دل بے قرار کیے رہتا ہے کہ مراد پوری کرنے میں جلدی کر۔ اس طرح میں عجیب کشمکش میں پھنس گیا ہوں۔ ایسی صورت میں جب تک جگرخون کر عشق میں پختگی پیدا ہو میں دل کا کیا علاج کروں۔

چوتھا شعر

ہم نے مانا، کہ تغاقل نہ کرو گے ،لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب ہمیں معلوم ہےکہ تم ہماری جانب تغافل نہیں کرو گے اور ہماری خبر لو گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب تک تمہیں ہماری حالت زار کی خبر پہنچے گی تب تک ہمارا کام تمام ہو چکا ہوگا۔ مطلب یہ کہ ہم سوزِ دل کو برداشت نہیں کر سکیں گے اور ختم ہو جائیں گے۔

پانچواں شعر

پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک

اس شعر میں غالب کہتے ہیں کہ جس طرح دھوپ شبنم کو فنا کی تعلیم دیتی ہے یہی حالت ہماری ہے کہ اے محبوب تم آفتاب ہو اور میں شبنم کا ایک قطرہ اور میری زندگی محض تمہارے محبت بھری نظر تک ہے۔ تم سورج کی طرح مجھ پر اپنا پرتو ڈالو گی تو میں شبنم کی طرح فنا ہو جاؤں گا۔

ساتواں شعر

غم ہستی کا ،اسؔد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

شاعر خود سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے اسؔد زندگی کے غموں کا موت کے سوا دوسرا کوئی علاج نہیں ہے کہ جب تک زندگی ہے غم رہے گا اور موت کے ساتھ ہی یہ ختم ہوگا۔دیکھو کہ محفل غم ہو یا بزم نشاط، شمع کو ہر صورت صبح تک جلنا ہی پڑتا ہے۔جب تک صبح نہیں ہوتی اور اسے بجھا نہیں دیا جاتا یعنی ختم نہیں کر دیا جاتا اسے جلنا پڑتا ہے۔اسی صورت غم حیات بھی موت کے ساتھ ہی ختم ہوتا ہے۔