Back to: مرزا غالب کی شاعری
Advertisement
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا مے وہ کیوں بہت پیتے بزم غیر میں یا رب آج ہی ہوا منظور ان کو امتحاں اپنا منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے بارے آشنا نکلا ان کا پاسباں اپنا درد دل لکھوں کب تک جاؤں ان کو دکھلا دوں انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا گھستے گھستے مٹ جاتا آپ نے عبث بدلا ننگ سجدہ سے میرے سنگ آستاں اپنا تا کرے نہ غمازی کر لیا ہے دشمن کو دوست کی شکایت میں ہم نے ہم زباں اپنا ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا |