Back to: مرزا غالب کی شاعری
Advertisement
- یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
- اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
- ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
- کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
- کوئ میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
- یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
- یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
- کوئ چارہ ساز ہوتا کوئ غم گسار ہوتا
- رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
- جسے غم سمجھ رھے ہو یہ اگر شرار ہوتا
- غم اگر چہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچپن کہ دل ہے
- غمِ عشق اگر نہ ہوتا غمِ روزگار ہوتا
- کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بُری بلا ہے
- مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
- ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
- نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
- اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
- جو دوی کی بُو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
- یہ مسائل تصوّف یہ ترا بیان غالبؔ
- تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا ..
مرزا اسد اللّه خان غالبؔ
Advertisement