یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا تشریح

0
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
غم اگر چہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچپن کہ دل ہے
غمِ عشق اگر نہ ہوتا غمِ روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بُری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوی کی بُو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ مسائل تصوّف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

غزل کے مشکل الفاظ کے معانی

وصال : ملن ، ملاقات
نیم کش: آدھا کھینچا ہوا
خلش چبھن
ناصح : نصیحت کرنے والا
چاره ساز: حل تلاش کرنے والا
غم گسار : غم بانٹنے والا
گسل: تباہ کرنے والا
غرق : ڈوبنا
یگانہ : یکتا
بادہ خواد : شراب پینے والا

پہلا شعر

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

تشریح :

یہ شعر مرزا غالب کی ایک مشہور غزل کا مطلع ہے جس میں شاعر کہتا ہے کہ میری قسمت میں ہی نہیں تھا کہ میری ملاقات محبوب سے ہو پاتی اور اگر میری زندگی تھوڑی اور لمبی بھی ہوتی تب بھی میرا یہ انتظار ، انتظار میں ہی رہتا۔ گویا شاعر اس قدر مایوسی کا اظہار کر رہا ہے کہ میری قسمت میں ہی محبوب سے ملاقات نہیں ہے۔

دوسرا شعر

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تشریح:

شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب تو نے وصل یعنی ملنے کا وعدہ کیا اور اس کے باوجود ہم زندہ رہے تو وجہ یہ تھی کہ ہم نے جان لیا تھا کہ تیرا وعدہ جھوٹا ہے اور تو جھوٹ بول رہا ہے اور اسی لیے ہم زندہ رہے ورنہ ہم خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا یعنی اے محبوب اگر یہ اعتبار ہوتا کہ تو نے سچ میں ملاقات کا جو وعدہ کیا ہے اور اس کو تو پورا بھی کرئے گا تو ہم خوشی سے پھولے نہ سماتے لیکن افسوس کہ تو نے جھوٹا وعدہ ہی کیا۔

تیسرا شعر

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

تشریح :

شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب تو نے اپنی ترچھی نگاہوں سے جو آدھا کھینچا ہوا تیر چلایا ہے وہ میرے جگر میں جا کے اٹک گیا ہے جس کی وجہ سے میرے دل کو بہت تکلیف ہو رہی ہے۔ اگر یہ تیر پورا کھینچ کر چلایا ہوتا تو جگر سے گزر جاتا اور ایک ہی بار درد محسوس ہوتا لیکن یہ اٹکا ہوا تیر مجھے بہت درد دے رہا ہے۔ مطلب یہ کہ تیرا آدھی نگاہ سے دیکھ کر پھر نظر اندازہ کر دینا بہت تکلیف دہ ہے۔

چوتھا شعر

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

تشریح :

اس شعر میں شاعر اپنے دوستوں کی دوستی کی بات کر رہا ہے کہ مجھے ایسے دوستوں کی ضرورت نہیں ہے جو مجھے ہر وقت یہ نصیحت کرتے رہیں عشق کرنا چھوڑ دے، محبوب سے محبت ترک کر وغیرہ۔ شاعر کی نظر میں دوست وہ ہوتا ہے جو کسی مصیبت سے نکال سکے اور مسئلے کا حل نکال سکے اور غم میں برابر کا شریک ہو۔

پانچواں شعر

غم اگر چہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روز گار ہوتا

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ غم اگرچہ جان کو تباہ کرنے والا ہے لیکن غم سے سے نجات کیونکر ممکن ہے کیوں کہ ہمارے پاس دل ہے اور دل میں کسی نہ کسی طرح کے غم موجود ہوتے ہیں۔ کیوں کہ دل کا کام ہے طرح طرح کی خواہشات کا اظہار کرنا اور جب وہ خواہشیں پوری نہیں ہوتیں تو دل پریشان ہو جاتا ہے تو گویا اگر ہمارے دل میں عشق کا غم نہ بھی ہوتا تو پھر ہمیں روز گار کا غم ستاتا۔

چھٹا شعر

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے ؟ شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا ، اگر ایک بار ہوتا

تشریح:

شاعر کہتا ہے کہ غم کی رات بہت بری بلا ہے مگر میں کس طرح سب کو دکھاؤں کہ یہ کتنی بری چیز ہے۔ اس سے بہتر تھا کہ مجھے موت ہی آجاتی تو سارے غموں کا خاتمہ ہی ہو جاتا تو گویا غم کی رات اتنی تکلیف دہ ہے کہ اُس سے آسان ہے موت کا آجانا۔ کیوں کہ موت ایک ہی بار آتی ہے لیکن غم کی رات ہر دن کے بعد دوبارہ آ جاتی ہے۔

ساتواں شعر

ہوئے مرکزی ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مرنے کے بعد بعد بھی رسوائی ہمارے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہی کیوں کہ مرنے کے بعد ہمارا جنازہ اور ہماری قبر کو دیکھ کر ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے کہ یہ وہی شخص ہے جو اپنے محبوب کے عشق میں رسوا ہو کر جان دے بیٹھا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس سے بہتر تھا کہ ہمارا جنازہ ہی نہ اٹھتا اور نہ ہی ہمارا کوئی مزار ہوتا اور ہم کسی دریا میں ڈھوب کر مر جاتے اور ہماری لاش تک بھی نہ میسر آتی۔

آٹھواں شعر

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے ، جو نہ بادہ خوار ہوتا

تشریح :

غزل کے مقطع میں مرزا غالب اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اے غالب تیرے اشعار اور کلام میں جو یہ تصوف کے مسائل بیان ہوئے ہیں یہ اس قدر سنجیدہ اور پاکیزہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے لوگ تجھے اللہ کا ولی سمجھتے لیکن تیرے اندر صرف ایک کمی ہے کہ تو شراب بہت بیتا ہے اور شراب پینا اسلام میں حرام ہے۔