کوئی امید بر نہیں آتی تشریح

0
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی

داغ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

شعر نمبر 1

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

غالب فرماتے ہیں کہ نہ تو میری کوئی اُمید بَر آتی ہے اور نہ اُمید بَر آنے کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ مراد یہ کہ ساری عمر نامرادی میں بسر ہوگئی اور آگے بھی مرادیں بر آنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

شعر نمبر 2

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

شاعر فرماتے ہیں کہ موت تو بیشک اپنے وقتِ مقررہ پر آئے گی۔ نہ اس سے پہلے آ سکتی ہے اور نہ وقت ٹلنےکے بعد۔ لیکن اس نیند کو کیا ہو گیا ہے؟ اس کا تو موت کی طرح کوئی وقت مقرر نہیں ہے، یہ تو کسی وقت بھی آسکتی ہے لیکن یہ رات بھر مجھے ترساتی کیوں رہتی ہے۔پوری رات آنکھوں میں کٹ جاتی ہے۔شعر کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ موت کا ایک دن تو مقرّر ہے یعنی وہ تو اپنے مقررہ وقت پر آنی ہے، پھر موت کے خوف سے رات بھر نیند کیوں نہیں آتی ہے‌؟

شعر نمبر 3

آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

شاعر فرماتے ہیں کہ پہلے یہ حالت تھی کہ کبھی مجھے اپنے حالِ زار پر ہنسی آجاتی تھی کہ میں نے اپنی کیسی شکل بنالی ہے لیکن اب اُداسی اور مایوسی کی یہ حالت ہے اب مجھے اپنے حال پر ہنسی نہیں آتی۔ یہ صورتِ حال تب ہوتی ہے جب افسردگی اور اُداسی حد سے بڑھ جائے۔

شعر نمبر 4

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چُپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

فرماتے ہیں کچھ ایسی بات ہے جس کی وجہ سے میں بات نہیں کرتا اور خاموشی اختیار کیے ہوئے ہوں۔ورنہ یہ بات نہیں کہ میں بات کرنا نہیں جانتا۔مجھے بات کرنا خوب آتا ہے گویا شاعر کسی مصلحت کی وجہ سے خاموش ہے جسے وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا ہے۔

شعر نمبر 5

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

شاعر فرماتے ہیں کہ میری شدید خواہش ہے کہ راس نہ آنے والی اسِ زندگی سے نجات مل جائے اور موت آ جائے۔لیکن میری یہ خواہش بھی پوری نہیں ہوئی۔ اس خواہش کے پورا ہونے کی فکر میں، میں اس قدر اذیّت و تکلیف سے گزرتا ہوں جو موت کی اذیّت سے کسی قدر کم نہیں ہے۔ گویا میں مر جانے کی آرزو میں موت کی اذیّت سے گزرتا ہوں اور اس طرح میں بار بار مرتا رہتا ہوں لیکن اگر حقیقی طور پر موت آجاتی ہے تو میری جان چھوٹتی لیکن موت چاہتے ہوئے بھی نہیں آتی۔

شعر نمبر 6

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

غالب اپنے آپ سے مخاطب ہو کر طنزیہ لہجے میں کہتے ہیں کہ تم نے تو اپنی ساری عمر گناہوں میں گزار دی اور اب حج کرنے چلے ہو۔اب تم کس منہ سے کعبہ جاؤ گے؟ کیا تمہیں اپنے اعمالِ بد دیکھ کر شرم نہیں آتی کہ کیا منہ لے کر خدا کے گھر جاؤں؟ گویا اگر تمہیں شرم ہوتی تو تم وہاں جانے سے کتراتے لیکن ظاہر ہے کہ تم بےشرم ہو اور تمھیں اپنے گناہوں پر کوئی ندامت نہیں ہے۔اور بے شرم ہو کر حج کرنے چلے ہو۔